عورتوں کا ریپ اور فرائض کی یکطرفہ تقسیم۔۔۔روبینہ شاہین

ہمارے  معاشرے میں ریپ کیسز پر بات کی جائے ، تو بہت سےسوال اٹھائے جاتے  ہیں۔۔۔

1۔ کیا عورتوں کو  برقعے پہنائے جائیں؟

2۔ کیا سادہ پاکستانی لباس عریانی چھپانے کو کافی نہیں؟

3۔ کیا عورت ہی مرد کی جنسی تحریک کی ذمہ دار ہوتی ہے؟

4۔ کیا مرد اتنا بے بس ہے، کہ اسکا اس حرکت پر بھی دفاع کیا جائے؟

ایسے سوالات پر اکثریت خاموشی اختیار کرتی ہے، اور چند لوگ اسکی کھلے عام مذمت کر کے مرد کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ معاشرے میں کچھ لوگ ایسی صورتحال میں بھی مردانہ دفاع سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے اور ان سوالات کا حتی المقدور جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جوابات نہ صرف یہ کہ منطقی اعتبار سے مضحکہ خیز ہوتے ہیں، بلکہ ہماری معاشرتی سوچ میں مرد کو حاصل استثنائی حیثیت کے بھی عکاس ہوتے ہیں۔

جوابات کچھ یوں دئیے جاتے ہیں:

1۔ جب نیٹ اور میڈیا میں مرد ننگ دیکھے گا، تو عدم دستیابی پر یہی کچھ ہوگا۔۔۔ یعنی نیٹ اور میڈیا ذمہ دار ہے بیچارہ مرد نہیں۔

2۔ اب تو عورتیں بھی لڑکوں کا ریپ کرتی ہیں۔۔۔ یعنی ایک قلیل تعداد کیسز کا کاؤنٹر اٹیک کر کے مرد کو فوکس سے ہٹا دیا جائے۔

3۔ اسلامی قوانین کے مطابق مردوں کی چار شادیوں کا رواج عام کرنا چاہیے۔۔۔ یعنی موصوف اپنی ذاتی حسرت بیان کر کے اس ایشو پر اپنی طرف سے پردہ ڈال چکے، اب سب کو مطمئن ہو جانا چاہیے۔

4۔ اسلامی قوانین اور سزاؤں کا اطلاق ہونا چاہیے۔۔۔ بالکل درست بات ہے، ہونا چاہیے، کہ شاید کوئی ڈر سے ہی خود کو روک پائے۔۔۔ لیکن یہ کہنے میں کیا تامل کہ مرد کی غلطی ہے، وہ ذمہ دار ہے، معاشرے نے مرد کی تربیت ہی ایسی کی کہ وہ خود کو ایک جانور جیسا ہی  بنا پایا۔

5۔ قیامت قریب ہے۔۔۔۔ یعنی ہم سب کبوتر بن جائیں، اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ قیامت آنے والی ہے۔

6۔ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے، اور اسے سائنس میں فلاں نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔ بہت خوب، یعنی اب ہم بیماری کا نام جان لینے سے مرد کو بری الذمہ سمجھیں!

ہمارے معاشرے نے ہمیشہ مرد کو وہ سماجی حیثیت دی کہ جس میں اسکی خواہش ہی سب کچھ ہے، اسکا پورا ہونا لازم ہے۔ یہ ایک عام سوچ ہے کہ مرد کی خواہش اور ضروریات مقدم ترین ہیں، اور عورتیں ان کو پورا کرنے کے لئے ہی پیدا ہوئی ہیں۔ ایک عام گھر میں عورت پانی دینے سے لے کر کپڑے دھونے، استری کر کے حاضر کرنے، نہانے کا پانی گرم کرنے، غسل خانے میں تولیہ رکھنے، کھانا گرم گرم مہیا کرنے جیسے معمولی کاموں کی بھی ذمہ دار ہے۔ بچپن سے فرائض کی یہ یکطرفہ تقسیم مرد کے ذہن میں اپنی ضرورت اور خواہش کی اہمیت اور اس کے سامنے عورت کی وقعت کا ایک واضح خاکہ بنا دیتی ہے۔۔۔ اب چاہے عورت بہن ہے، بھابی ہے یا ماں۔

کیا یہ عجب نہیں کہ ایک نوجوان لڑکا گھر میں داخل ہو کر اپنی ماں سے پانی مانگے؟ عورت سال ڈیڑھ کے بچے کو اس کے ضعف اور ضرورت کے تحت پانی پلاتی ہے، لیکن ایک 16 سال کے نوجوان کو یہ خیال کیوں نہیں کہ یہ عورت میری ماں ہے، سارا دن کام کاج میں مصروف رہتی ہے، اور اس سے پانی حاضر خدمت کروانا مناسب نہیں؟ اہم ترین بات یہ کہ مائیں اس معاشرتی رویے کی زیادہ ذمہ دار ہیں۔ بیٹا کوئی ایسی شے سمجھی جاتی ہے کہ جس کی خدمت مرتے دم تک خود بھی کرنی ہے، اور اسکی بہن بھابیوں سے بھی کروانی ہے۔ اگر یہی بہن بھابیاں اس خدمت پر ناک بھوں چڑھائیں، تو ماں کو انکا یہ رویہ برا لگتا ہے۔

یہ سوچ وہ بنیاد ہے جو شدت اختیار کرتے کرتے مرد  کو عورتوں کے ریپ تک لے جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ بات مبالغہ آرائی لگے، لیکن میرے نزدیک یہی سوچ شعور یا لاشعور کو ضرورت پہ مرد کے بے بس ہونے کا یقین دلاتی ہے، یہی سوچ کہ سب حاضر ہو، ضرورت پوری ہو، اور عورت ضرورت پوری کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں ریپ کو روکنے کے لئے سزا نہیں، اپنا معاشرتی طرز عمل، سوچ، ذمہ داریوں اور فرائض کی تقسیم پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ ابتداء کے طور پر گھر میں بیٹے اور بیٹی کو ایک جیسی ذمہ داریاں اور ایک جیسی خود مختاریاں دیں۔ بہتری کی طرف یہی پہلا قدم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply