• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اٹھتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اٹھتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

تیسرے سمسٹر کا اختتام ہو چکا تھا،سٹوڈنٹس کو رزلٹ کا انتظار تھا۔ چھٹیوں کی وجہ سے سب اپنے اپنے گھروں پر تھے۔ گرمیوں کا شدید موسم، تیز دھوپ، آسمان پر صرف سورج کا راج تھا۔ ضروری کاموں کے علاوہ کوئی بھی اس گرم موسم میں باہر نکلنے سے پرہیز ہی کیا کرتا۔
میں، صائمہ اور صدف گرمیوں کی وہ صبحیں اور دوپہریں یونیورسٹی میں بِتانے لگے۔ گھر والے پوچھتے کہ کیا یونیورسٹی کی چھٹیاں نہیں ہوئیں۔ یہ دن تو چھٹیوں کے ہیں، سکول، کالج سب بند ہیں یہ کون سی یونیورسٹی ہے جو گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی کھلی ہوئی ہے۔۔۔۔؟
ہم ان کو آگاہ کرتے کہ “یہ سرکاری یونیورسٹی ہے، اس میں چھٹیوں میں بھی چھٹیاں نہیں ہوتی، لائبریری اور کینٹین کھلے رہتے ہیں، اس لیے ہم وہیں پر بیٹھ کر سیلف  سٹڈی کرتے ہیں۔ اب گرمیوں میں بغیر بجلی کے گھر پر بور ہونے سے بہتر ہے کہ یونیورسٹی میں خوشگوار ماحول میں کچھ مطالعہ کر لیا جائے۔”
اُن دنوں چھٹیوں میں ریگولر یونیورسٹی جانے کی ایک خاص وجہ زولوجی ڈیپارٹمنٹ کے کینٹین کی “چائے” تھی۔
ہم اُس “چائے” کے لیے اپنے گھر سے یونیورسٹی تک کا طویل فاصلہ طے کرتے تھے۔ جانے وہ لوگ چائے میں کیا ملاتے تھے، ہم ان کے پکّے گاہک بن گئے۔ صبح گیارہ بجے زولوجی کینٹین پر ہم چائے کا پہلا کپ پی کر باتوں میں مصروف ہو جاتے۔ باتیں کر کر کے تھکاوٹ کا احساس ہوتا تو چائے کا دوسرا دور شروع ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ صبح سے شام تک ہم اسی کینٹین پر اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ درختوں کے سائے میں، چائے کے کپ ہاتھوں میں لیے، پتھروں کے اوپر بیٹھے ہوئے گفتگو میں مصروف، ایک موضوع ختم ہوتے ہی دوسرا موضوع شروع ہو جاتا۔۔۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ  کینٹین میں کام کرنے والا لڑکا “جونی” ہمیں آکر اطلاع دیتا،
“اب ہم کینٹین بند کرنے لگے ہیں، آپ لوگ جلدی سے چائے ختم کر کے کپ واپس کر دیں اور پیسے بھی دے دیں، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔”
تیسرے سمسٹر میں “میتھمیٹکس” کے لازمی مضمون کی کلاس میں ہمارے ساتھ پولیٹیکل سائنس کے  سٹوڈنٹس بھی ہوتے تھے۔ وہ ایک کمبائنڈ کلاس تھی۔ اس کلاس کی وجہ سے میرے کچھ نئے دوست بھی بنے۔ انہی میں ثمینہ نام کی ایک لڑکی تھی۔ اس کی سانولی سی رنگت تھی، گہری کالی آنکھیں اور کمر تک لمبے بال۔۔۔ جب ہماری پہلی بار بات ہوئی تو مجھے اس کی آواز سن کو “رانی مکھرجی” کا خیال آیا۔ اس کی آواز اور بولنے کا انداز بالکل رانی مکھرجی جیسا تھا۔ میں نے اس کو رانی مکھرجی کہنا شروع کر دیا اور ہماری اچھی دوستی ہو گئی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بنگالی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سے وہ اور اس کا خاندان کراچی میں ہی آباد ہیں۔ اس کے گھر پر اعلیٰ تعلیم کا رواج بالکل بھی نہیں ہے۔ صرف اور صرف اپنے شوق کی وجہ سے وہ جدوجہد کر کے یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ابھی بھی اس کے گھر والے یونیورسٹی کے ماحول کو بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ان ہی دنوں میں، ثمینہ کی وجہ سے میں نے بنگالی ڈیپارٹمنٹ بھی جانا شروع کر دیا تھا۔ شعبہ بنگالی میں گنتی کا کچھ  سٹاف تھا اور تین چار  سٹوڈنٹس۔ میں اور ثمینہ کلاسز کے بعد وہیں چلے جاتے۔ وہاں کی لائبریری میں موجود بنگالی زبان کی کتابوں کو الماریوں سے نکال نکال کر دیکھتے۔ وہ اکثر بنگالی کتابوں سے مجھے کچھ پیراگراف پڑھ کر سناتی۔ وہ بنگالی زبان سے کسی حد تک واقف تھی، گھر پر اس کے امّی ابو بنگالی ہی بولتے تھے۔

ایک روز میں نے صائمہ اور صدف کو بھی ثمینہ سے ملوایا۔ ملاقات سے پہلے ہی میں ان دونوں سے ثمینہ کی ڈھیروں تعریفیں کر چکا تھا۔ انہیں یہ بات بھی بتا دی تھی کہ ثمینہ بالکل رانی مکھرجی جیسی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب میں، صائمہ اور صدف روزانہ یونیورسٹی جا رہے تھے تو ایک دن ثمینہ کا فون آیا، وہ افسردگی کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ “میں ان چھٹیوں میں گھر پر رہ رہ کر بور ہو گئی ہوں، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم کہیں باہر گھومنے چلیں، تم اگر راضی ہو تو میں اور بھی دوستوں کو کہتی ہوں پکنک کے لیے۔” میں نے اس کو بتایا کہ ہم تو اپنے وقت کو خوشگوار بنانے کے لیے روزانہ یونیورسٹی جا رہے ہیں۔ اگر تم یونیورسٹی آجاؤ تو زیادہ بہتر ہو گا، صائمہ اور صدف سے بھی مل لینا۔۔۔

اگلے دن ثمینہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے کوریڈور میں بینچ پر بیٹھ کر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے جب صائمہ اور صدف سے ثمینہ کو ملوایا تو صائمہ نے اس کو دیکھتے ہی مجھے آہستگی سے کہا،
“عاطف تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے، اندھے ہو کیا۔۔۔؟ اس لڑکی کو تم رانی مکھرجی جیسا کہہ رہے تھے اتنے مہینوں سے۔۔۔ یہ تو کہیں سے بھی مجھے رانی کی طرح نہیں لگتی ۔۔”
میں نے صائمہ کو کہا کہ پلیز ابھی تم خاموش ہو جاؤ، اچھی بھلی تو ہے ثمینہ، اب اگر مجھے یہ رانی مکھرجی جیسی لگتی ہے تو میں کیا کروں۔۔۔
اس دن صدف کو ثمینہ سے مل کر اچھا لگا تھا۔ ہم لوگ پولیٹیکل سائنس سے زولوجی کینٹین کی طرف گئے۔ سارا راستہ صائمہ کا موڈ آف تھا۔ چائے کے دوران جب ثمینہ نے باتیں شروع کیں تو میں اور صدف مکمل طور پر اس کی باتوں میں کھو چکے تھے۔ اس دن کے اختتام پر جب ثمینہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہو چکی تو صدف نے مجھ سے کہا تھا۔۔
“عاطف آج تو بہت اچھا دن گزرا ثمینہ کے ساتھ۔۔۔ مجھے اچھی لگی اس کی باتیں، رانی مکھرجی کی طرح تو نہیں، لیکن وہ ایک دلچسپ لڑکی ہے۔۔۔ اس کے پاس اتنی باتیں ہیں کہنے کو۔ میں سوچ رہی ہوں اتنی نان  سٹاپ باتیں وہ لائی کہاں سے ہے۔۔”

اس دن کے بعد ثمینہ نے بھی ہر روز یونیورسٹی میں آنا شروع کر دیا۔ ہم روزانہ ملتے۔ اس کو گفتگو کا فن آتا تھا۔ اس بات کو صائمہ نے بھی بعد میں تسلیم کیا۔ وہ اپنے علاقے کے مختلف قصے ہمیں سناتی رہی۔ دوران گفتگو میں اور صدف خاموش اور وہ مستقل بولے جا رہی ہوتی۔ ثمینہ کے پاس سنانے کے لیے ہر طرح کے قصے تھے۔ ایک قصہ ختم ہوتا تو وہ دوسرا شروع کر دیتی۔ جب اس کے پاس کراچی کے علاقے “بنگالی پاڑہ” کے قصے ختم ہو جاتے تو وہ مشرقی پاکستان کا رخ کرتی اور اس بارے میں اپنے والدین کی بتائی ہوئی مختلف کہانیاں ہمیں سناتی۔

گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی ہمارا رزلٹ آگیا۔ ہم سب مضمون میں پاس تھے سوائے میتھمیٹکس کے۔ اتفاق سے پچیس طالبعلم میتھمیٹکس میں فیل تھے اور ان پچیس ناکام طالبعلموں میں میرے ساتھ ثمینہ بھی شامل تھی۔

ہم دونوں پریشان تھے کہ یہ مضمون اب کیسے پاس ہو گا۔ کیونکہ ہم دونوں ہی حساب میں کمزور تھے۔ کلاس کے کچھ لڑکے اور لڑکیاں ٹیچر سے بات کرنے گئے، ہم بھی اس قافلے میں شامل ہو گئے۔ وہاں پر اس بات پر اتفاق ہوا کہ آپ سب طالبعلم چونکہ سوشل سائنسز کے ہیں، حساب کو پاس کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، اس لیے میتھمیٹکس کا پیپر دوبارہ نہیں لیا جائے گا، بس آپ ایک اسائنمنٹ مکمل کر کے جمع کروائیں۔ اسائنمنٹ کے نام پر ہم سب کے مرجھائے ہوئے چہروں پر رونق آگئی۔ ٹیچر نے جب ہمیں اسائنمنٹ کا ٹاپک دیا تو وہ ہمارے لیے اور زیادہ مشکل تھا۔ زیادہ تر  سٹوڈنٹس اسائنمنٹ بنانے کے لیے لائبریری کی طرف روانہ ہوئے۔ میں اور ثمینہ بھی لائبریری گئے لیکن وہ اسائنمنٹ بنانا ہم دونوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ ہمارے پاس ایک ہفتہ تھا۔ اس ایک ہفتے میں اگر اسائنمنٹ مکمل نہیں ہوتی  تو ہمیں دوبارہ سے امتحان میں بیٹھنا ہو گا۔۔۔ اس دن شام کے وقت جب صائمہ اور صدف لائبریری آئیں اور پوچھنے لگیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اتنی پریشانی کی حالت میں کیوں بیٹھے ہوئے ہو تم دونوں۔۔۔ صائمہ کی بات سن کر میں خاموش رہا لیکن ثمینہ فوراً بول پڑی، چپ رہنا تو جیسے اس کے لیے گناہ تھا۔۔۔
“آج صبح رزلٹ اناؤنسڈ ہوا تھا۔ ہم دونوں حساب میں فیل ہیں، اب سر نے اتنی مشکل اسائنمنٹ دے دیا ہے۔ یہ بن ہی نہیں رہا ہم سے، کیا کریں۔۔۔۔ آہ! بڑی مشکل آن پڑی ہے۔”
ثمینہ کی بات سن کر مجھے اچانک ہنسی آگئی۔۔۔ چاہے کیسا ہی بُرا بھلا وقت ہو لیکن اس کی زبان چلتی ہی رہتی تھی۔۔۔ اس گھڑی بھی اس کا یہ کہنا کہ
“آہ! بڑی مشکل آن پڑی ہے۔۔۔” ثمینہ کے اس جملے پر مجھے ہنستا ہوا دیکھ کر صائمہ اور صدف بھی ہنسنے لگیں۔۔۔ اس شام ہم نے اپنی اسائنمنٹ کے بارے میں صدف اور صائمہ کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ صدف نے کہا کہ پریشان نہ ہو، میں مدد کر دوں گی۔ کل اپنی یونیورسٹی سے کلاسزلینے کے بعد میں یہیں لائبریری آجاؤں گی، تم دونوں بھی اسائنمنٹ سے ریلیٹڈ کتابیں لے آنا۔
صدف کی مدد سے دو دن کے اندر ہماری وہ مشکل اسائنمنٹ مکمل ہوئی ، اور یوں ہم حساب میں کامیاب ہوئے۔

وہ دن میں اکثر یاد کرتا ہوں۔ صرف زولوجی ڈیپارٹمنٹ کی چائے پینے کے لیے ہم لوگ دور دور سے سفر کر کے یونیورسٹی پہنچتے تھے۔ اُن چھٹیوں میں زولوجی کی چائے نے ہم سب کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ ہر ایک سے ہم زولوجی کی چائے کی بےپناہ تعریفیں کیا کرتے۔ ہمیں ایسا لگتا کہ ہم وہاں پر گاہک نہ ہوں بلکہ اس کینٹین کے مالک ہوں۔۔۔ ایک سال کے بعد وہ کینٹین کچھ ماہ کے لیے نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند ہو گئی۔ پھر وہ دوباہ کھلی مگر اس کے مالک بدل چکے تھے اور جب کسی کینٹین کے مالک بدل جائیں تو ہر چیز ہی بدل جاتی ہے۔ اب وہاں کی چائے کا ذائقہ بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ اس لیے ہم نے بھی وہاں پر جانا ترک کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ ہر گزرتے دن کا ذائقہ آنے والے دن سے مختلف ہوتا ہے۔ ان ذائقوں میں انسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ وہ فطرت کی طرف سے دی گئی سانسوں کو متعین وقت میں ان کڑوے، میٹھے ذائقوں سے آشنائی دینے  کے بعد ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جاتا ہے۔
کیا معدومیت کے بعد انسان کسی تاریکی میں ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتا ہے یا وہاں وہ کسی روشنی سے ہمکنار ہوتا ہے۔۔۔ اگر وہ معدومیت کے بعد کسی روشنی سے ہمکنار ہوتا ہے تو وہ روشنی کیسی ہوتی ہو گی۔۔۔ کیا اس روشنی میں بھی انسان میٹھے ذائقوں سے آشنائی حاصل کرتا ہو گا؟۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply