کُرۂ ارض پہ مظلوم ترین قوم ” روہنجا مسلمان “۔آخری حصہ

‎ روہنجا مسلمانوں کے خلاف 1991 اور پھر 1992 کا ملٹری کریک ڈاؤن اس لحاظ سے 1978 کے کریک ڈاؤن سے مختلف تھا، کہ 1978 میں روہنجا مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے والے صرف برمی ملٹری کے افراد تھے، لیکن 1991 اور پھر چند ماہ بعد 1992 میں ملٹری کریک ڈاؤن میں اک نئی بات یہ تھی، کہ پہلے فوجی دستے کسی ایسے گاؤں کا محاصرہ کرکے جس میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی، گھر گھر کی تلاشی لیتے، گھر کے استعمال میں کام آنے والے چاقو چھریوں اور جلانے کی لکڑی کاٹنے کے لیے اکا دکا گھروں میں موجود کلہاڑیوں کو خطرناک اسلحہ قرار دے کے اسے ضبط کیا جاتا، اور نام نہاد امن کے پرچارک بدھسٹ دہشت گردوں کو حکم دیا جاتا، کہ یہ نہتے مسلمان اب تمہارا شکار ہیں جو چاہے ان کے ساتھ سلوک کرو۔ان دونوں واقعات میں بھی ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا، خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں، مال و اسباب لوٹ کے ان کے گھروں کو جلادیا گیا، کئی گھروں میں تو زندہ انسانوں کو بھی جلایا گیا، 1992 وہ پہلا سال ہے، جس میں روہنجا مسلمانوں کےاڑھائی لاکھ سے زائد لوگوں نے بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کی!

برمیز گورنمنٹ نے روز اول سے یہ قانون بنایا ہوا ہے، کہ روہنجا مسلمانوں کے پیدا ہونے والے بچوں کو برتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا جاتا، مبادا کوئی روہنجن اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پہ کسی کو رشوت دے دلا کے شناختی کارڈ حاصل نہ کرلے، یا اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پہ کسی دوسرے ملک میں پناہ نہ حاصل کرلے۔حالانکہ دوسرے صوبوں خصوصاً  ینگون میں رہنے والے مسلمانوں کو ان کے بچوں کی پیدائش پہ برتھ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں، چھوٹا موٹا کاروبار یا ملازمتیں کرتے ہیں، اور اپنےآپ کو انڈین کہلواتے ہیں، ضرورت پڑنے پہ ان لوگوں کو شناختی کاغذات اور پاسپورٹ بھی دیے  جاتے ہیں، لیکن ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، نیز ان کا روہنجا نسل سے کوئی خونی، لسانی یا علاقائی تعلق بھی نہیں۔

1992 کے کریک ڈاؤن اور بدھسٹ دہشت گردی کے بعد پھر بیس سال کا عرصہ کسی بڑی نسل کُشی کے بغیر گزر گیا، 2012 میں برمیز گورنمنٹ نے پورے ملک کی بجائے صرف روہنجا مسلمانوں کے لیے دو بچے ایک گھرانہ کا قانون نافذکیا، اور دو سے زائد بچے ہونے کی شکل میں سخت ترین سزا مقرر کی۔اس امتیازی قانون کے خلاف روہنجا مسلمانوں نے جب احتجاج کیا تو پھر ان پہ بدھ دہشت گرد چھوڑ دیے گئے، جنہوں نے 1992 سے بھی زیادہ بربریت کا مظاہرہ کیا، معصوم دودھ پیتے بچوں کے  جسموں  کے ٹکڑے کیے گئے، عورتوں کی عصمتیں لوٹ کے انہیں زندہ جلایاگیا، تو امن کے پرچارک بدھسٹوں کی ننگا ناچ ناچتی بربریت کو قرارآیا۔

اس بار صرف 3 سال کا وقفہ آیا اور 2015 میں ایک بار پھر کائنات کی ارزاں ترین شے خونِ مُسلم کو بے دردی سے بہایا گیا، اس بار بھی ہزاروں لوگ اپنا مال و متاع اور گھر بار چھوڑ کے ہجرت پہ مجبور ہوئے!اگلے سال 2016 میں ایک گاؤں میں بچوں کے جھگڑوں میں بڑے جب میدان میں کودے تو بدھسٹوں نے اسے اپنے اوپر حملہ قرار دے کے پورے علاقہ میں فسادات شروع کروادیے اور ہزاروں مسلمانوں کو جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک ایک وقت میں دو دو سو سے زائد انسانوں کو بلاتفریق جنس و عمر زندہ جلادیا گیا۔

ظلم جب حد سے بڑھتا ہے، تو مظلوم و مقہوراقوام میں کچھ سرفروش سروں پہ کفن باندھ کے ظالم کا ہاتھ روکنے کے اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آجاتے ہیں! 2016 کے فسادات سے پہلے انٹرنیشنل میڈیا پہ روہنجا مسلمانوں کی جانوں اور عزت و ناموس کو بچانے کے لیے دبا دبا سا ایک نام ” حرکة الیقین ” سُننے میں آیا، جسے انگلش میڈیا نے انگلش میں ( Faith Movement ) کا نام دیا، حرکة الیقین پہ برمی گورنمنٹ نے اپنی دہشت گردی چھپانے کے لیےالزام لگایا، کہ فسادات اس گروپ کی طرف سے ہمارے برما بنگلہ دیش بارڈر کی پوسٹوں پہ حملہ آور ہونے اور ان میں ہمارے 9 بارڈر آفیسرز اور 4 سولجرز کے قتل کے بعد ان کے ورثاء کی طرف سے بطور احتجاج ہوئے ہیں!
15 نومبر 2016 کو برمی آرمڈ فورسز کے ایک آفیشل نے فسادات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ جھوٹ بھی بولا کہ ان فسادات میں ہمارے ہاتھوں صرف باغیوں کی 69 ہلاکتیں ہوئی ہیں، عام عوام کو ہم نے کچھ نہیں کہا، حالانکہ سوشل میڈیا کے  ذریعے پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ اور مردہ جلانے کے واقعات کا مشاہدہ کیا! لیکن نہ ہی عالمی ضمیر جاگا اور نہ ہی سوکالڈ انسانیت کے علمبرداروں کو یہ وحشت و درندگی نظر آئی!

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے نام سے 1995 میں بننے والی ایک تنظیم جس کا ہیڈ کوارٹر  بیلجئم کے شہر برسلز میں ہے، اور جس کا نعرہ یہ ہے، کہ ہم دنیا سے جھگڑوں کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ اپنا ماٹو یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ہم غیر سرکاری اورنان پرافٹ ایبل تنظیم ہیں ، ہم دنیا بھر میں بڑے جھگڑوں کے فریقین کو آپس میں بٹھانےاور ان کےجھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے میڈیا اور دنیا بھر کے سیاست دانوں کی مدد سے کوششیں کرتے ہیں، اس گروپ کے مطابق ان کی اس آرگنائزیشن کو چلانے کے لیے 49 فیصد فنڈز مغربی ممالک کی حکومتوں اور 51 فیصد فنڈز دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بڑی بڑی کمپنیوں، خیراتی اداروں، اور مخیر حضرات سے ملتے ہیں اس تنظیم نے برمیز ملٹری آفیشلز کی پریس کانفرنس کے ٹھیک ایک ماہ بعد 14 دسمبر 2016 کو روہنجا مسلمانوں کی آزادی کے لیے چند ماہ قبل بننے والی تنظیم ” حرکة الیقین ” پہ یہ الزام لگایا کہ اس تنظیم کو پاکستان اور سعودی عرب سے فنڈنگ ملتی ہے، اور اس کا الزام بھی حرکة الیقین کے لیڈروں پہ لگادیا کہ ان کے انٹرویوز سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے۔

اسی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں ایک الزام یہ بھی لگایا، کہ افغانی اور پاکستانی جہادیوں نے اراکان کے جنگلات میں روہنجا مسلمانوں کو لڑائی کی ٹریننگ بھی دی ہے۔مزے کی بات یہ ہے، کہ اس وقت تک برمی گورنمنٹ کا مؤقف اس کے بالکل برعکس تھا، برمی گورنمنٹ کے مؤقف کے مطابق گرفتار شدہ حرکة الیقین کے افراد سے تسلی بخش تفتیش کے باوجود ہمیں دوسرے ممالک کے جہادی گروپوں کے ساتھ ان کے روابط کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔آگے بڑھنے سے قبل ذرا ہم اس الزام کا جائزہ لے لیں کہ کیوں انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے سعودیہ اور پاکستان پہ ” حرکة الیقین ” کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا۔۔۔حرکة الیقین کے بانی اور لیڈر کا نام عطاءالله ہے، یہ روہنجن مسلمان ہے، 1978 کے فسادات کے بعد دیگر ہزاروں روہنجا مسلمانوں کی طرح اس کے والدین بھی براستہ بنگلہ دیش پہلے کراچی آئے، کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ سعودیہ منتقل ہوگئے اس عطاء الله کی پیدائش تو کراچی کی ہے، لیکن بچپن اور نوجوانی کا دور اس کا سعودی عرب میں گزراہے۔

غیر جانبدار حلقوں کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت مکہ، مدینہ، جدہ کے علاوہ مختلف شہروں میں روہنجا مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے، لیکن خود روہنجا اور دیگر اقوام کے برمی مسلمانوں کے نزدیک ان کی سعودیہ میں تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے، مکہ مکرمہ میں رہنے والے ایک روہنجا عالم دوست کے مطابق ان دس لاکھ میں سے سات لاکھ سے زیادہ ان روہنجا مسلمانوں کو شاہ سلمان خاموشی سے سعودی نیشنیلٹی دے چکے ہیں، جنہوں نے کسی نہ کسی طرح پروف کردیا، کہ وہ روہنجا ہیں اور برمی بدھسٹ دہشت گردوں کی دہشت گردی کا شکار ہوکے بے وطن  ہوئے ہیں،جو لوگ ابھی تک اپنے آپ کو روہنجا ثابت نہیں کرسکے، لیکن برمی ثابت کرچکے ہیں، ان کو اقامہ میں وہ چھوٹ دی گئی ہے، جو دنیا کی کسی قوم کو نہیں دی گئی، حتٰی کہ یمنی پناہ گزینوں کو بھی وہ سہولت نہیں دی گئی۔کسی بھی برمی مسلمان کو ہرسال سعودیہ میں اقامہ کی تجدید نہیں کروانی پڑتی، بلکہ ان کے لیے چار سال بعد اقامہ کی تجدید کا قانون بنایا گیا ہے، اور وہ بھی بغیر کسی بھی قسم کی فیس کے۔

حالانکہ پاکستانیوں سمیت بہت سی دیگر اقوام کے لیے ہر سال تجدید اقامہ بمعہ بھاری بھرکم فیس ضروری ہے۔ہمارے جذباتی نوجوان جو کافی دنوں سے اسی روہنجن بحران کو لے کے سعودی حکومت، 40 ملکی فوجی اتحاد اور پاک افواج کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے ہیں، انہیں نہ تو زمینی حقائق کا علم ہے، اور نہ ہی ممالک کے باہمی معاملات کا،یہ اکیسویں صدی ہے، اسےآپ آج سے تین چار سو سال پہلے کے حالات کے مطابق نہیں دیکھ سکتے،آج کی جنگ کئی محاذوں پہ لڑی جاتی ہے، اور ہم مسلمان بحیثیت قوم ہر محاذ پہ بہت سی اقوام سے زیادہ پسماندہ ہیں۔

میں نے جو چند تحاریر روہنجن مسلمانوں کے معاملات پہ فیس بک پہ دیکھیں، ان میں مجھے Safdar Cheema بھائی کی پوسٹ میں بیان کردہ نُکات سب سے زیادہ قابل عمل نظر آئے، جن میں اہل عقل و دانش مزید بہتری لاکے اسے مؤقر حلقوں تک پہنچا سکتے ہیں۔روہنجا مسلمانوں کی نسل کُشی کو بہت ہی وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،بحرانوں کا پُر امن حل تلاش کرنے کا سوکالڈ دعوٰی کرنے والے انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اپنی رپورٹس میں حرکة الیقین کو آج سے ایک سال قبل پاکستانی اور افغانی جہادیوں کا بغل بچہ اور ٹرینر اور سعودیہ کے مخیر حضرات پہ ان کے فنانسر ہونے کا الزام لگاکے ان دونوں ممالک کو مسلم دشمن مغربی ممالک کا اگلا شکار بنانے کی کوشش کی ہے، جسے سمجھنے کے لیے جذبات کی بجائے بالغ نظری کی ضرورت ہے۔

پاکستان، اس کی ایٹمی اور میزائل قوت، پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت پہلے ہی ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح نہیں بلکہ شہتیر کی طرح چبھتی  ہیں، ایسے میں ہر فریق کو عقل و ہوش کے دامن کو تھامتے ہوئے بہت ہی دور رس فیصلے کرنے پڑیں گے،جو اسلام، عالم اسلام اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے شایانِ شان بھی ہوں،عقل مند حکومتیں شور مچاکے نہیں بلکہ خفیہ سفارتکاری کے ساتھ دور رس خوشگوار اور دیرپا فوائد کے حامل فیصلے کرتی ہیں، نہ کہ ہماری فیس بُکی جذباتی پوسٹوں کو دیکھ کر۔

22 جون 2017 کو برمی گورنمنٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے ایک رپورٹ میڈیا پہ نشر کروائی، جس میں یہ دعوٰی کیا گیا، کہ بنگلہ دیشی بارڈر کے ساتھ اراکان کے جنگلات میں حرکة الیقین جس کا اب نام ( ASRA ) اسلامک روہنجین سالویشن آرمی ہےکے ایک ٹریننگ کیمپ پہ اٹیک کیا گیا، وہاں حفاظت پہ مامور تین مسلم باغیوں کو ہلاک کیا گیا، ٹریننگ کیمپ میں سے ٹریننگ کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی کی بندوقیں، گن پاؤڈر، اور بڑی تعداد میں مختلف اشیاء ملیں!

جولائی 2017 میں برمی گورنمنٹ نے ARSA پہ الزام لگایا کہ ان کی کارروائیوں سے اب تک 45 کے قریب بدھسٹ سولین ہلاک اور اغوا، اور 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
25 اگست 2017 کو برمی گورنمنٹ کی سنٹرل کمیٹی فار کاؤنٹر ٹیررازم نے ARSA پہ عام روہنجن مسلمانوں کی مدد سے آرمی بیسز اور پولیس چوکیوں پہ حملوں کا ذمہ دار ٹھہرا کے دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئر کردیا۔اسی روز برمی گورنمنٹ نے یہ اعلان بھی کیا، کہ ARSA اور روہنجن مسلمانوں کے ساتھ تصادم میں سکیورٹی فورسز کے 12 افراد ہلاک ہونے کے بعد ہمارے جوابی حملوں میں 77 روہنجن باغی ( عام مسلمان ) بھی ہلاک ( شہید ) ہوئے ہیں۔

25 اگست سے جاری حالیہ نسل کُش فسادات روہنجن مسلمانوں کے اس مطالبہ کے بعد شروع ہوئے، جب انہوں نے برمیز گورنمنٹ کی طرف سے پچھلے 69 سال سے بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی پہ اپنے لیے علیحدہ سرزمین کا مطالبہ کیا، تو ایک منظم طریقے سے فورسز کے ٹرینڈ سولین افراد کے ذریعہ ان کی نسل کُشی شروع کردی گئی، اور الزام یہ لگایا گیا کہ ARSA کے ہزاروں جنگجوؤں نے آرمی بیسز اور پولیس چوکیوں پہ حملے کیے۔حالانکہ برمیز آفیشلز کے اپنے اعلامیہ نومبر 2016 کے مطابق ARSA کے ممبرز کی تعداد 500 سے زائد نہیں۔

اس وقت اراکان کے مسلم اکثریتی علاقوں کی صورت حال یہ ہے، کہ ایک لاکھ کے قریب بے کس افراد بنگلہ دیش کے بارڈر پہ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں، بنگلہ دیش کہ جہاں پہلے ہی پانچ لاکھ روہنجا مسلمان پناہ گزین کی حالت میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، مزید لوگوں کو لینے سے انکار کرچکا ہے،دس ہزار سے زائد، مرد عورتیں بچےبوڑھے جوان مظلومانہ شہید ہوچکے ہیں، سینکڑوں باعصمت عورتوں کی زبردستی عزت لوٹی جاچکی ہے،سوکالڈ امن کے داعی بدھسٹ دہشت گردوں نے لوگوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو آگ لگا ان کی راکھ کو سمندر میں بہانا شروع کردیا ہے، تاکہ اقوام متحدہ کی انویسٹی گیشن ٹیم کو کسی بھی جرم کا کوئی سراغ نہ مل سکے۔اراکان میں سرکاری اندازے کے مطابق 2012 میں 10 سے 13 لاکھ روہنجن مسلمان تھے، اور روہنجن مسلمانوں کے مطابق 2012 میں ان کی تعداد 20 لاکھ سے اوپر تھی،جن میں سے اس وقت اراکان میں 7 لاکھ سے بھی کم افراد بچے ہیں، اگر سرکاری اعداد و شمار ہی کو صحیح تسلیم کرلیا جائے، تو بقیہ 6 لاکھ افراد کہاں چلے گئے ؟
انہیں زمین کھا گئی یا آسمان؟؟

الطاف حسین حالی رح کی ایک نظم کے چند اشعار پہ اپنی تحریر کا اختتام کرنا چاہوں گا۔

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

اے چشمہ رحمت بابی انت و امی
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کہ مقبول خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے!

 

Facebook Comments

صاحبزادہ ضیا
تحقیق و جستجو میں ہمہ وقت سرگرداں تلخ ترین حقائق منظر عام پہ لانا جن کے اظہار سے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply