• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عید الفطر،نماز کا طریقہ اور احکام۔۔۔۔مولانا رضوان اللہ پشاوری

عید الفطر،نماز کا طریقہ اور احکام۔۔۔۔مولانا رضوان اللہ پشاوری

جاننا چاہیے  کہ اسلام نے سال بھر میں عید کے صرف دو دن مقرر کئے ہیں۔ ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الاضحیٰ کا اور ان دونوں عیدوں کو ایسی اجتماعی عبادات کا صلہ قرار دیا ہے جو ہر سال انجام پاتی ہیں۔ اس لئے ان عبادات کے بعد ہر سال یہ عید کے دن بھی آتے رہتے ہیں۔
عید الفطر تو رمضان المبارک کی عبادات فاضلہ صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی انجام دہی کے لئے توفیق الٰہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے اور عید الاضحیٰ اس وقت منائی جاتی ہے جبکہ مسلمانان عالم اسلام کی ایک عظیم الشان اجتماعی عبادت یعنی حج کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اس میں اظہار مسرت اور خوشی منانے کا اسلامی طریقہ یہ قرار پایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا جائے اور بطور شکر کے عید الفطر کے دن صدقہ فطر ادا کیا جائے اور عید الاضحیٰ میں بارگاہ خداوندی میں قربانی پیش کی جائے اور اپنے خالق کی کبریائی اور عظمت و توحید کے گیت گاتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر اجتماعی طور پر سجدہ ریز ہو جائے اور اس طرح اپنے مالک کی توفیق و عنایات کا شکر ادا کیا جائے۔ اس اسلامی طریقہ پرعید منانے کا طبعی اثر یہ ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنی مسرت و خوشی کے اظہار میں بے لگام ہو کر نفسانی خواہشات کے تابع پڑنے سے باز رہے اور دوسری قوموں کی طرح اس دن میں عیش و نشاط کی محفلیں آراستہ کرنے اور لذت و سرور میں بدمست ہو کر خدا فراموشی سے پرہیز و اجتناب کرے۔
مقصد یہ ہے کہ عید کا دن مسلمانوں کے لئے ہنود و یہود اور عیسائیوں وغیرہ اقوام عالم کے قومی تہواروں کی طرح کا کوئی تہوار نہیں ہے اور نہ ایک دفعہ پیش آنے والے کسی تاریخی واقعہ کی یادگار کے طور پر ہر سال منایا جاتاہے۔ جیساکہ عموماً دوسری قوموں کے تہوار ایسے ہی واقعات تاریخیہ کی یادگار ہوتے ہیں بلکہ یہ دن مسلمانوں کی عبادت کا ہے اور اس کو منانے کے لئے خاص شان و صفت کی عبادت نماز کو مقرر کیا گیا ہے یہاں تک کہ جو مسلمان اس دن میں عمدہ لباس پہنتا اور ظاہری زیبائش و آرائش کرتا ہے اس کا مقصد اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عید گاہ میں پہنچ کر شکرانہ کے طور پر عبادت کا ادا کرنا ہی ہوتا ہے اور اس کی اس ساری زینت و آرائش کی غرض بھی ایک عبادت کی تکمیل اور اس کو عمدہ طریقہ پر ادا کرنا ہی ہوتا ہے افسوس کہ ہم دوسری قوموں کی نقالی میں آ کر رفتہ رفتہ عید کے اس اسلامی تصور اور اس کے حقیقی مقصد کو فراموش کرتے جا رہے ہیں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی عید کو ایک قومی تہوار اور محض کھیل تماشہ اور تھیڑ‘ سینما بینی کا دن سمجھ لیا ہے۔ اس لئے ہم بھی اس عبادت کو اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق منانے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض جگہ تو عبادت کے لئے عید گاہ میں جاتے ہوئے اور واپسی کے لئے ڈھول وغیرہ لے جاتے ہیں اور اس کو اظہار خوشی کا جائز طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ بالکل غیر اسلامی اور روح عبادت کے خلاف ہے۔ دوسری قوموں کے تہواروں اور رسومات میں تو ایسے طریقے ہوتے ہیں مگر جس اسلامی عید کے منانے کا حکم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا ہے اس عید میں کھیل تماشا اور ڈھول تماشہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ فکر سے کام لیا جائے تو عید کے اس اسلامی جشن مسرت میں تو قدم قدم پر احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے کا ہم کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ عید کے دن سنت کے مطابق غسل کرنا‘ عمدہ لباس پہننا اور عید گاہ کے راستہ میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور بڑائی کا اعلان اللہ اکبر کے ذریعے کرتے جانا اور پھر دوگانہ نماز میں عام نمازوں سے چھ مرتبہ زیادہ اللہ اکبر سے اللہ کی بڑائی کا اقرار کرنا اظہار خوشی کے اس اسلامی طریقہ پر عمل کرنے کے بعد کیا کسی ہوشمند انسان کے لئے یہ بات رہ جاتی ہے کہ وہ عیش و نشاط اور کھیل تماشہ کی مجلسوں میں شریک ہو اور خدا فراموشی کا مظاہرہ کرے۔
غرضیکہ شریعت اسلامی نے اس عید الفطر کو عبادت کے طور پر مقرر فرمایا ہے اور اس میں اظہار خوشی کا طریقہ بھی عبادت کی صورت میں ہی مقرر کیا گیا ہے اس لئے مسلمانوں کو عید الفطر کے متعلق اس کے خاص خاص احکامات و ہدایات کے معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ زیر نظر مضمون میں فقہ کی معتبر کتابوں سے عیدین کے ضروری احکام کو اسی غرض سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عید الفطر کے منانے کا اسلامی طریقہ معلوم کرکے مسلمان اس پر عمل پیرا ہوں اور ثواب آخرت کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عنایت فرما ویں۔
عید الفطر کے احکام:
1) عید الفطر کی شب میں زیادہ عبادت کرنا مستحب ہے اور دن میں روزہ رکھنا حرام ہے۔
2) عید الفطر کے دن نماز کی دو رکعتوں کا بطور شکریہ کے ادا کرنا واجب ہے۔
3) اگر عید جمعہ کے دن ہو تو جمعہ اور عید دونوں کی نمازیں پڑھی جائیں گی۔
4) جمعہ کی نماز کے صحیح اور واجب ہونے کے لئے جو شرطیں فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھی ہیں وہی سب شرطیں عید الفطر کی نماز کے لئے ضروری ہیں۔ البتہ نماز جمعہ سے پہلے تو خطبہ کا پڑھنا فرض اور شرط ہے اور عید کی نماز کے بعد خطبہ سنت ہے لیکن سننا اس خطبہ کا بھی جمعہ کے خطبہ کی طرح ہی واجب ہے۔ خطبہ کے وقت کلام وغیرہ سب حرام ہے۔ (درمختار)
فائدہ:خطبہ میں خاموش بیٹھے رہنا واجب ہے جو لوگ شور و غل مچاتے ہیں وہ گناہ گار ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ خطبہ چھوڑ کر چل دیتے ہیں وہ بھی برا کرتے ہیں اور بعض بیٹھنے والے بھی صف کا خیال نہیں رکھتے۔ حالانکہ صف باندھے رہنا چاہئے۔ (افادۃ العلوم ترجمہ خطبات الاحکام)
5) جمعہ کی نماز کی طرح عید کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے بھی شہر و قصبہ یا ایسے بڑے گاؤں کا ہونا شرط ہے جس میں کثرت سے دکانیں ہوں اور اس کی آبادی قصبہ کے برابر ہو۔ (بہشتی زیور)
فائدہ:جو گاؤں اتنا بڑا نہ ہو کہ اس میں جمعہ یاعید کی نماز درست نہیں‘تو اس لئے اس میں نماز ظہر ادا کرنا لازم ہے اور چونکہ ایسے گاؤں میں یہ نفلی نماز ہو گی اور نفلی نماز کا اہتمام کے ساتھ با جماعت ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور دن کی نماز میں بلند آواز سے قرأت کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے اس وجہ سے ایسے گاؤں میں جمعہ یا عید کی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ (در مختار)
عید کی سنتیں:
عید کے دن تیرہ چیزیں سنت ہیں:
1) شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔
2) غسل کرنا۔
3) مسواک کرنا۔
4) حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا۔
5) خوشبو لگانا۔
6) صبح کوبہت جلد اٹھنا۔
7) عید گاہ میں بہت جلد جانا۔
8) عید الفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیزکھانا۔
9) عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا۔
10) عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا بغیر عذر شہر کی مسجد میں نہ پڑھنا۔
11) ایک راستہ سے عید گاہ میں جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا۔
12) عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللہ الحمدعید الفطر میں آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا۔
13) سواری کے بغیر پیدل عید گاہ میں جانا۔ (نور الایضاح)
فائدہ: مستحب یہ ہے کہ وہ میٹھی چیز چھوارے ہوں اور ان کا عدد طاق ہو۔عام طور پر عید الفطر کی صبح کو بھی سحری کے وقت صبح صادق کے بعد کھائے۔ (مراقی الفلاح)
یوم عید کی بدعات:
منجملہ اور رسوم کے ہمارے قصبات میں ایک یہ رسم ہے کہ عید کے دن سحری کے وقت اذان فجر کا انتظار کرتے ہیں اور اذان کے وقت کہتے ہیں کہ روزہ کھول لو پھر کچھ کھاتے ہیں تو ان کے نزدیک اب تک رمضان ہی باقی ہے۔ شوال کی پہلی رات بھی گزار لی اور ان کے یہاں ابھی روزہ ہی ہے۔ حدیث شریف افطروا لرویۃ ہے اور ان کے یہاں ایک شب اور گزرنا چاہئے۔
سو یوں کی تخصیص:
ایک رسم عید کے دن ایک کھانے کی تعیین کی ہے کہ سویاں ہی پکائی جاتی ہیں اور اس میں ایک مصلحت ہے جس کی وجہ سے اس کو اختیار کیا گیا ہے وہ یہ کہ اس کی تیاری میں زیادہ بکھیڑے کی ضرورت نہیں اور دن کو عید کا کام کاج ہوتا ہے اور مستحب ہے کہ کچھ کھا کر عید گاہ کو جانا چاہیے اس لئے سہل الحصول چیز کو اختیار کر لیا بعد ازاں دوست احباب کے یہاں بھیجنے کا رواج ہو گیا اس کی نظیر میں تہادی الی العروس کو پیش کیا جاتا ہے یہ صحابہ کرامؓ سے ثابت ہوا ہے کہ جیسے دولہا کے پاس خوشی کا دن دیکھ کر ہدیہ بھیجنا مستحسن ہے اسی طرح عید کا دن بھی خوشی کا ہے احباب کے پاس کیوں نہ تحفے بھیجے جائیں۔
ایسے ہی عید کے دن کے ہدایاہیں اور اگر غور کیجئے گا تو ان ہدایا کو قرض پایئے گا کیونکہ دیتے وقت یہ ضرورنیت ہوتی ہے کہ اس کے یہاں سے بھی آئے گا اور اگر ایک مرتبہ نہ آئے تو ادھر سے بھی بند ہو جاتا ہے اور ہدیہ کی تعریف میں بلاعوض کی شرط ماخوذ ہے پس یہ ہدیہ بھی نہ رہا پھر قرض دار ہونے یا قرض دار کرنے سے کیا فائدہ؟
عید الفطر کی نماز کے احکام:
1) عید الفطر کی نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے کے بعد (جس کااندازہ پندرہ بیس منٹ ہے) اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور زوال یعنی سورج کے ڈھلنے تک رہتا ہے۔(در مختار)
2) نماز عید سے پہلے اس روز کوئی نفلی نماز پڑھنا عید گا ہ میں بھی اور دوسری جگہ بھی مکروہ ہے اورنماز عید کے بعد صرف عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے نماز عید کے بعد دوسری جگہ نفل پڑھے جا سکتے ہیں یہ حکم عورتوں اور ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں۔(شامی)
3) شہر کی مسجد میں اگر گنجائش ہو تب بھی عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا افضل ہے اور ایک شہر کے کئی مقامات پر بھی نمازعید کا پڑھنا جائز ہے۔ (در مختار)
4) نماز عید سے پہلے نہ اذان کہی جاتی ہے نہ اقامت (در مختار)
نماز کا طریقہ:
پہلے اس طرح نیت کرے کہ میں دو رکعت واجب نماز عید چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھتا ہوں اور مقتدی امام کی اقتداء کی بھی نیت کرے۔ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے اور سبحانک اللھم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دے اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر توقف کیا جائے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے۔ ہاتھ باندھنے کے بعد امام اعوذ باللہ‘ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھے او رمقتدی خاموش رہے پھر رکوع سجدہ کے بعد دوسری رکعت میں پہلے امام فاتحہ اور سورۃ پڑھے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے تین مرتبہ پہلی رکعت کی طرح تکبیریں کہی جائیں۔ اور تیسری تکبیر کے بعد بھی ہاتھ نہ باندھے جائیں‘ پھر ہاتھ اٹھائے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کیا جائے مقتدی بھی امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا اٹھا کر تکبیر کہے اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کی جائے۔(مراقی الفلاح)
چونکہ عموماً ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اس لئے نماز عید کے بعد تو دعا مانگنا مسنون ہو گا مگر خطبہ کے بعد مسنون نہ ہو گا۔ (امداد الفتاویٰ)
امام نماز کے بعد دو خطبے پڑھے۔ خطبہ کو تکبیر سے شروع کرے۔ پہلے خطبہ میں نو مرتبہ تکبیر کہے اور دوسرے خطبہ میں سات مرتبہ اور دونوں خطبوں کے درمیان خطبہ جمعہ کی طرح اتنی دیر تک بیٹھے جس میں تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام بیان کئے جائیں بہتر یہ ہے کہ جو شخص نماز پڑھائے خطبہ بھی وہی پڑھے۔ (در مختار)
اگر امام عید کی تکبیر بھول جائے اور رکوع میں اس کو خیال آئے تو اس کو چاہئے کہ وہ بغیر ہاتھ اٹھائے حالت رکوع میں ہی تکبیریں کہہ لے قیام کی طرف نہ لوٹے‘ اگر قیام کی طرف لوٹ آیا تب بھی نماز ہو جائے گی فاسد نہ ہو گی اور ہر حال میں بوجہ کثرت اژدحام کے سجدہ سہو نہ کرے۔ (در مختار و شامی)
اگر کوئی شخص عید کی نماز میں ایسے وقت شریک ہوا کہ امام عید کی تکبیروں سے فارغ ہو گیا ہو تو اب اگر قیام میں شریک ہوا ہے تو نیت باندھنے کے فوراً بعد تکبیریں کہہ لے۔ اگرچہ امام قرأت شروع کر چکا ہو۔ اگر رکوع میں شریک ہوا تو اگر گمان غالب ہو کہ تکبیریں کہنے کے بعد امام کا رکوع مل جائے گا تو نیت باندھ کر پہلے تکبیریں کہہ لے‘ اس کے بعد رکوع میں جائے اور اگر رکوع نہ ملنے کا خوف ہو تو رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے اور حالت رکوع میں بجائے تسبیح کے تکبیریں کہہ لے مگر اس حالت میں تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر تین مرتبہ تکبیریں کہنے سے پہلے ہی امام رکوع سے سر اٹھائے تو یہ مقتدی بھی کھڑا ہو جائے اور جس قدر تکبیریں رہ گئی ہوں وہ اس سے معاف ہیں۔ (در مختار و شامی)
اگر کسی کی عید کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو امام کے سلام کے بعد جب وہ اس کو ادا کرنے لگے تو پہلے قرأۃ کرے اس کے بعد یہ تکبیریں کہے۔ اگر دونوں رکعتیں رہ گئی ہوں یعنی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد کوئی شخص شریک ہوا تو امام کے سلام کے بعد وہ اسی طرح عید کی نماز ادا کرے جس طرح امام نے ادا کی ہے یعنی پہلی رکعت میں سبحانک اللھم کے بعد قرأت سے پہلے تکبیریں کہے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد کہے۔ (در مختار)
اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو یعنی امام کے سلام کے بعد آیا ہے تو وہ شخص تنہا عید نہیں پڑھ سکتا۔ بلکہ جو شخص نماز عید میں شریک ہو گیا ہے اور پھر کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو گئی ہو اس پر بھی اس کی قضا واجب نہیں۔ ہاں اگر اس کے ساتھ کچھ اور آدمی شریک ہو جائیں تو پھر پڑھنا واجب ہے۔ (در مختار)
اگر کسی عذر سے پہلے دن نماز عید نہ پڑھی جا سکی ہو تو عید الفطر کی نماز دوسرے دن کے زوال تک پڑھی جا سکتی ہے۔(در مختار)
عذرکی مثالیں:
کسی وجہ سے امام نماز پڑھانے نہ آیا ہو اور اس کے بغیر نماز پڑھنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو‘ یا بارش ہو رہی ہو‘ یا چاند کی تاریخ کی تحقیق نہ ہوئی ہو۔ اور زوال کے بعد جب نماز کا وقت جاتا رہا تو چاند کی تحقیق ہوئی ہو۔ (در مختار و شامی)
امام نے نماز عید پڑھائی‘ پھر بعد میں معلوم ہوا کہ بغیر وضو پڑھائی گئی اب اگر لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے معلوم ہو گیا تو امام وضو کرے اور لوگوں کو دوبارہ نماز پڑھائے اور اگر لوگ متفرق ہو چکے ہوں تو نماز کا اعادہ نہ کیا جائے وہی نماز جائز ہو گی۔ (شامی)

Facebook Comments

مولانا رضوان اللہ پشاوری
مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور ناظم سہ ماہی ’’المنار‘‘جامعہ علوم القرآن پشاور انچارج شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ علوم القرآن پشاور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply