حاجی حج سے واپسی پر زندگی کیسے گزاریں۔۔۔حافظ محمد صفوان

حج کو زندگی بھر کی عبادات کا حاصل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو دنیا کے ایک فیصد سے بھی کم مسلمانوں پر فرض ہے۔ وہ خوش قسمت جو حج کر آتے ہیں، چاہیے کہ ان کی زندگی باقی لوگوں کے لیے نمونہ ہو۔
ہمارے ہاں محاورۃً یہ کہا جاتا ہے کہ حج سے زندگی بدل جاتی ہے۔ یہ جملہ کیوں زباں زد ہوا، اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ تقسسیم سے پہلے صرف بحری جہاز ہی کے ذریعے حج کا سفر ہوتا تھا اور یہ سفر پورے ایک سال بلکہ ڈیڑھ سال پر محیط ہوتا تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ دور دراز کے علاقوں سے قافلے چلنا شروع ہوتے تھے جو جگہ جگہ رکتے ہوئے بمبئی کے ساحل تک پہنچتے تھے۔ یہ قافلے جہاں رکتے وہاں قرب و جوار سے عازمینِ حج تیار ہوکر ان کے ساتھ ہو جاتے۔ یوں یہ قافلہ بڑھتا چلا جاتا۔ پھر جہاز میں دو ہفتے کا سفر ہوتا تھا۔ اور حجاز پہنچ کر بھی چار ماہ قیام ہوتا تھا جو تقسیم کے بعد گھٹتے گھٹتے ڈیڑھ ماہ رہ گیا۔
یوں اس سفر میں نمازوں اور دیگر بدنی عبادات سیکھنے اور کرنے کا موقع ملتا تھا جن سے جسم عبادات کی مشقت کا عادی ہو جاتا تھا۔ عبادات میں اضافے اور پورا سال ان کو بلاناغہ کرنے کی وجہ سے روحانی قوت یعنی قوتِ دعا بھی بڑھتی جاتی تھی اور خدا سے لو لگانے کا ملکہ حاصل ہو جاتا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ سفر میں کئی علاقوں اور ثقافتوں رسوم و رواج والے لوگوں کے ساتھ کئی ماہ گزارنے کی وجہ سے آپس میں میل جول رکھنے، اچھی عادات اور ناگواریوں پر برداشت جیسی اعلیٰ انسانی صفات بھی پیدا ہوجاتی تھیں۔ یہ صفات حج کے بعد میں زندگی میں مسلمان کو ایک بدلا ہوا مسلمان بنا دیتی تھیں۔ چنانچہ یہ کہا جاتا تھا کہ حج سے زندگی بدل جاتی ہے۔
آج کل صورتِ حال یکسر بدل چکی ہے۔ حج کا سفر اس قدر مختصر ہو گیا ہے کہ فجر کی نماز اپنی مسجد میں پڑھ کر آپ ظہر کی نماز بسہولت خانہ کعبہ یا مسجدِ نبوی شریف میں ادا کر سکتے ہیں۔ سفر میں جو مسافر آپ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہے، آپ اس سے رسمی سلام دعا کیے بغیر بھی سفر مکمل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے جہاں حج کے دوران حجاز میں قیام کا زمانہ ڈیڑھ ماہ سے تین اور چار ماہ تک کا ہوتا تھا، اب یہ گھٹتے گھٹتے تین دن تک آگیا ہے۔ اتنے مختصر وقت میں نہ جسم عبادت کی مشقت اور ذوق کا عادی ہوتا ہے نہ دعا مانگنا آتی ہے اور نہ ہی مختلف ثقافتوں والے مسلمانوں کے ساتھ میل جول اور رہن سہن۔ چنانچہ عملًا یہی ہو رہا ہے کہ حاجی جیسے جاتا ہے، حجاز میں دو راتیں گزر کر ویسے کا ویسا واپس آ جاتا ہے۔
حج کی اصل کمائی یہی ہے کہ حاجی کا رخ مال سے اعمال کی طرف اور اسباب سے رب الاسباب کی طرف پھر جائے۔ اس گن کو حاصل کرنے کے لیے بدن اور روح کو اعمالِ دین والے ماحول کا عادی بنانا ضروری ہے۔ آئیے اس کام کے لیے کچھ قابلِ عمل باتیں کرلیں۔
سب سے پہلی قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے جب کہ نماز روزانہ پانچ بار فرض ہے۔ الحمدللہ آپ نے حج کرلیا۔ اب سے طے کر لیجیے کہ نماز کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ بدن کو نماز کی مشقت کا عادی اور پابند بنانے کے لیے آسان ترین ترتیب یہ ہے کہ نماز کو اول وقت ادا کیا جائے۔ اپنے موبائل یا ٹیب یا لیپ ٹاپ وغیرہ پر نماز کے اوقات کی کوئی بھی ایپ ڈاؤن لوڈ کرکے انسٹال کرلیجیے اور جونہی اذان شروع ہو، فوری طور پر نماز پڑھ لیجیے۔ اول وقت نماز پڑھنے کی عادت آپ سعودیہ سے لے کر آئے ہیں۔ وہاں ترتیب ہی یہ ہے کہ جونہی وقت داخل ہوتا ہے تو اسی لمحے اذان اور اس کے فوراً بعد نماز۔ اگر یہ کام یہاں شروع کر لیا جائے تو سہولت سے پانچوں نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے ہاں مساجد میں نمازیں لیٹ پڑھنے کا رواج ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کی عادت بھی نماز کو ٹالتے چلے جانے کی ہو جاتی ہے۔ آپ چند حاجی صاحبان مل کر کوشش کریں تو یہ بری عادت دور ہوسکتی ہے۔ اگر سب لوگ نماز اول وقت نہیں پڑھ سکتے تو مسجد میں دو نمازیں باجماعت کی جاسکتی ہیں۔ تاہم اس کے لیے سختی نہ کی جائے اور بس اپنی نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ البتہ گھروں میں عورتیں نماز کو اول پڑھنے کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ اس میں بالکل سستی نہ کی جائے۔
اگلی عادت جو حاجی کو بنانی چاہیے اور بدن کو اس کی مشقت کا عادی اور پابند بنانا چاہیے وہ مسجد کی نماز ہے۔ کوشش کی جائے کہ ساری نمازیں مسجد میں پڑھی جائیں۔ لیکن اگر فوری طور پر اس کی پابندی مشکل لگ رہی ہے تو کم سے کم دو تین نمازیں تو ضرور ہی مسجد میں پڑھی جائیں۔ خدا چاہے تو رفتہ پانچ کی پانچ نمازیں مسجد میں پڑھنے کی توفیق مل جائے گی۔
ایک کام اور کیجیے کہ مسجدیں بدل بدل کر نماز پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کچھ دن ایک مسجد میں نماز پڑھیے اور پھر کسی اور مسجد میں جانا شروع کر دیجیے۔ اپنے اندر استادہ مسلک کا بت پاش پاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے کسی گھر کو نماز کے لیے خاص نہ کیا جائے۔ نماز کا وقت ہوتے ہی جو مسجد قریب ہو اسی میں چلے جایا جائے۔
جماعت کی نماز صرف مردوں پر نہیں بلکہ عورتوں پر بھی ضروری ہے۔ آپ حاجی صاحبان اور حجیانی صاحبات نے ایامِ حج میں ساری نمازیں مساجد میں اور باجماعت پڑھی ہیں۔ اسی عمل کو یہاں بھی شروع کیا جائے۔ اب تو الحمدللہ ہر شہر میں کئی کئی مساجد ایسی ہیں جہاں عورتوں کے لیے سہولیات مہیا ہیں۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ عورتیں بھی دو تین نمازیں تو ضرور ہی مسجد میں ادا کیا کریں۔ اگر فوری طور پر یہ مشکل ہے تو کم سے کم جمعے کی نماز بہرحال مسجد میں ادا کی جائے اور خدا توفیق دے تو رمضان میں تراویح بھی مسجد میں پڑھی جائے۔
یہ وہ کام ہیں جو ذرا سی سنجیدگی سے کرنے کی کوشش کی جائے تو چند ہی دن میں شروع ہوسکتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ خدا نے نماز والی نعمت مسلمنان کو دی ہی اس لیے ہے کہ اس میں پابندیِ وقت اور لوگوں میں میل جول کی خوبی پیدا ہو۔ نماز کے سدھار میں ساری زندگی کا سدھار چھپا ہوا ہے۔ اگر نماز کی پابندی کی جائے تو ساری زندگی دین پر آسکتی ہے۔ خدا توفیق دے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply