پرسنل پروٹیکٹو ایکویپمنٹ۔۔ڈاکٹر مدیحہ الیاس

کورونا کی وبانے مضرِصحت اثرات کے ساتھ جہاں ہماری بہت سی غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی اور تصحیح کی ہے وہاں قصائی اور مسیحائی کے فرق کو بھی واضح کر دیا۔۔ کل تک جو ہاتھ ڈاکٹرکے گریبان پکڑتے تھے، آج وہ سلام کرتے ہیں۔ کل تک جس میڈیا کی زباں پر ڈاکٹر کیلئے فقط لفظ قصائی تھا ، آج اسی میڈیاکے لبوں پر مداح سرائی ہے ۔۔ کل جس کی عزت زیرو تھی، آج قومی ہیرو بن چکا ہے۔ کہتے ہیں تھوڑی سی حوصلہ افزائی انسان سے دگنا کام کروا سکتی ہے ، ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے، فوجی کو بارڈر پہ لڑوا سکتی ہے اور ڈاکٹر سےکورونا وبا میں ڈیوٹیاں بھی کروا سکتی ہے۔
ہم نے بھی جب جواد احمد کے ترانے، فوج کی سلامی کے شادیانے سنے تو جوش و ولولے کی تجوری تمام تر لاک ڈاؤن کے باوجود خود ہی اَن لاک ہو گئی۔ فوجی سلوٹ نے حفاظتی سوٹ کی عدم دستابی کا غم بھلا دیا ۔

سوچا کہ گورنمنٹ نے تو ہمیشہ کی طرح اب بھی رونا ہی رونا ہے اور کورونا نے بِلا سوچے سمجھے ہونا ہی ہونا ہے تو ذرا باگ دوڑ کر کے اپنی حفاظتی کِٹ کا انتظام خود ہی کر کے ”خود تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے “ والے مصرع کی نفی کر کے اپنے پیاروں کو اس وائرس سے بچا لیا جاۓ۔۔ اب اپنا فرض تو نبھانا تھا، مریضوں کو بھی بچانا تھا۔۔ قسمت نے نیت کا ساتھ دیا اور N95 اور PPE کی دولت، عالمی قلت کے باوجود سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے کُل دو ہزار چھ سو پچاس پاکستانی روپے کے عوض  ہماری جائیداد کل کی آدھے صفحے کی فہرست میں لکھی جا چکی تھی۔شکر الحمداللہ!
خوشی کی یہ چند لہریں جوش و ولولے کی ٹھاٹھیں مارتی موجوں پر بھاری تھیں۔

چونکہ ہارٹ اٹیک کی اور کورونا کے اٹیک کی چند علامات مماثلت رکھتی ہیں سو کورونری کیئر یونٹ میں ہر وقت PPE کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ لہٰذا وارڈ میں داخل ہوتے ہی سفید وردی میں ملبوس عجیب سی مخلوق کو دیکھتے ہی قدم ساکن اور سوچ متحرک ہو گئی  کہ کہیں out of excitement اڑتے اڑتے ہم خلا میں تو نہیں پہنچ گئے ۔۔ ہمارا سی۔سی۔یو NASA کی spaceship کی شبیہہ بنا ہوا تھا۔۔ جہاں مذکر مونث کی تفریق کے بغیر ، سسٹر اور ڈاکٹر کی تصدیق کے بغیر ہر کوئی فورس آف گریوٹی سے بالا تر چاند پر اپنے اپنے عظمت کے جھنڈے گاڑنے میں مصروف تھا۔

ہم نے بھی رخ چینجنگ روم کی طرف موڑا ۔۔ کِٹ نکال کے دیکھی جس کے دونوں upper limb اور lower limb انٹر کنیکٹڈ تھے۔۔ زپ نما داخلی راستہ گویا اس کی Entry site تھی ۔۔ اس خلائی مخلوق والے لباس میں داخلے کے بعد زپ بند کر کے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے پریشر کُکر میں ڈال دیا ہو اور N95 نے رہی سہی ککر کے ویٹ کی کمی بھی پوری کر کے ہمیں دَم پہ لگا دیا ہو۔ ہمارا تو حقیقی لاک ڈاؤن ہو گیا تھا۔۔ نہ کچھ اندر جا سکتا تھا،نہ باہر آ سکتا تھا۔۔ اور اس ”کچھ“ میں سانس بھی شامل تھا۔

ماسک لگا کے ہمیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ Labored breathing والے مریض کس کرب سے گزرتے ہیں۔۔ ہمارا N95 کچھ زیادہ ہی ایفیشنٹ تھا۔۔ جو وائرس بیکٹیریا کے ساتھ آکسیجن پارٹیکلز کو بھی فلٹر کر رہا تھا۔۔ ہسپتال سے ہمیں صرف ایک شاپر کا اور ایک ربر کا glove اور پانی ملے sanitizer کے چند قطرے میسر ہوۓ تھے۔۔ انھی پہ صبر شکر کر لیا۔ اور یوں ہم سفّوکیٹنگ، ہائیپوکسِک personally arranged پرسنل پروٹیٹکٹو ایکویپمنٹ سے لیس ہو کے میدان وبا میں با خوف و خطر کود پڑے۔۔ مریضوں کا تفصیلی معائنہ کیا اور دو گھنٹوں بعد ہی ہانپتے ہوۓ اس سپیس شپ نما وارڈ سے سکھ والا اور آکسیجن والا سانس لینے کیلیے اخراجی راستہ اختیار کیا۔۔ اسی دو گھنٹوں پہ مبنی تحقیق وتجربہ کی بنا پر ہم یقینی طور پہ یہ مفروضہ پیش کر سکتے ہیں کہ روزانہ کم از کم چھ یا سات گھنٹے PPE پہن کے دم پہ لگے ہوۓ ڈاکٹر کی ABGs میں hypoxemia اور CBC میں erythrocytosis ضرور آۓ گا۔۔

اس ڈیوٹی سے پہلےمیں سوچتی تھی کہ خوامخواہ ڈاکٹرز کو وقتی طور پہ سر چڑھایا جا رہا ہے۔۔ قبل از وقت سلامیاں دی جا رہی ہیں۔۔ ابھی تو وبا نے پنجے گاڑھنے ہیں۔۔ ہمیں معرکہ آرا تو ہونے دیتے، وبا کا خاتمہ تو ہونے دیتے۔۔ مگر آج محسوس ہوا کہ بلا شبہ ہم ابھی سے ہی اس حوصلہ افزائی اور مداح سرائی کے حقدار ہیں۔۔ ہم تمام تر سختیوں کو جھیلتے ہوۓ میدان جنگ میں مورچے لگاۓ بیٹھے ہیں۔۔ جنگ گھمسان کی ہو یا معمولی ہو، ہم نصرمن اللہ و فتح قریب کا نعرہ لگاۓ بیٹھے ہیں۔۔ غازی یا شہید ۔۔ہمیں دونوں اعزاز قبول ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

معولی ہو یا گھمسان کی جنگ،
جب رب کی رحمت ہو ہمارے سنگ،
تو بے خوف لڑیں گے، نڈر لڑیں گے۔،
ہم مل کےکورونا نا پید کریں گے!

Facebook Comments

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
الفاظ کے قیمتی موتیوں سے بنے گہنوں کی نمائش میں پر ستائش جوہرشناس نگاہوں کو خوش آمدید .... ?

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply