دو ذرے ، آبِ حیات اور اک سیلِ رواں۔۔ضیغم قدیر

بگ بینگ کے دھماکے کو ہوئے چار ارب سال ہو چکے تھے۔ یہ زمین کھنکھناتے گارے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں تھی۔ کچھ بھی نہیں۔۔ ہر طرف ایک ہُوکا عالم تھا۔ چہار سو خاموشی کا راج تھا۔آوازیں تھیں  مگر گرتے شہابیوں کی۔۔

ایسے میں ان کے خاندان سے بھرا ایک شہابیہ بھی زمین پہ آ گرا،مگر زمین کی کششِ ثقل کم ہونے کی وجہ سے وہ سب بکھر کر ایک دوسرے سے دور دور جا گرے۔ جو پاس تھے وہ ابھی مدہوش تھے۔

سب سے پہلے اُن دو کو ہوش آئی۔ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے،کہ یہ ہو کیا گیا ہے۔ یہ ویرانی، یہ تو خلا کی لامتناہی فاصلوں سے بھی زیادہ ویران ہے جہاں کچھ پہر دن چڑھتا ہے تو لمبی راتیں ہوتی ہیں جبکہ خلاء میں تو ایسا کچھ نہ  تھا۔

وہ دونوں آپس میں اس سیارے کے   بارے میں باتیں کر رہے تھے۔آخر کیسے یہ سب ممکن ہوا، اور کیا وہ اس سیارے کے چپے چپے کو جان پائیں گے؟ ایسے میں ان کے اس اچھوتے خیال کو سن کر دور کھڑے مختلف ذرّے ہنسنا شروع ہوگئے، کہ یہ دو باہم دور کھڑے ذرّے، ایک پورا سیارا گھومیں گے۔ (ایک لامتناہی قہقہہ جو سیارے کی خاموشیوں کو چیرتا، گونجتا تھا)

آج انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل کے ہی رہیں گے۔ پہلے ذرّے نے ہلنے کی کوشش کی تو وہ لڑکھڑا گیا، نیچے ایک کھائی تھی۔ اسے یوں لڑکھڑاتا دیکھ کر اس کا ساتھی، دوست ذرہ پریشان سا ہوا اس کے لئے اپنے دوست کا یوں لڑکھڑا کر گرنا نا منظور لگا۔ اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ اسے تھما دیا۔ ہاتھ تھمانے کی دیر تھی کہ وہ دونوں دو ذرّوں کی بجائے ایک ذرّہ ہو گئے۔ اور اب وہ نیچے گر رہے تھے۔ آہستہ آہستہ۔۔۔۔

سب تماش بین ہنس رہے تھے ایسے میں ایک اور ذرّہ جو ان دو کے خیالات سے متاثر ہو کے اپنے ساتھ والے ذرّے سے ویسی ہی باغیانہ باتیں کرتا تھا اپنی جگہ سے ہلا ،اس نے ان کو تھام لیا۔ تھامنے کی دیر تھی وہ بھی ان سے جا ملا۔ دیکھا دیکھی اب سارے ذرّے ایک دوسرے کو بچانے کی خاطر کود پڑے۔ کیونکہ تھا عزیز ہر کسی کو کوئی نا کوئی۔ ۔مگر سب ذرّے جونہی ہاتھ پکڑتے ایک سیلِ رواں کا حصہ بن جاتے۔

کچھ ہی دیر میں وہ سب مختلف ذرّے ایک جھرنے کی صورت میں پھوٹے اور بہنا شروع ہو گئے۔ یہ تاریخِ دنیا کی پہلی ندی تھی جو خاموشیوں کے دامن میں امید کی دو باتوں سے پھوٹی تھی۔

تمام ذرّوں کو ہنسنے کو سزا کے طور پہ در بدر ٹھوکریں کھانا ملا۔ اب وہ کبھی بخارات بن کر بادل بناتے ہیں تو کبھی بارش بن کر برستے ہیں۔ کبھی سیلِ رواں تو کبھی حیاتِ جادواں، کبھی آب حیات تو کبھی مرگِ مفاجات۔ غرضیکہ وہ ذرّے پہلی الجائی کی صورت میں اس سیارے کے سکوت کے ٹوٹنے کا باعث بنے تو وہیں وہ ذرّے اس سیارے کے سکوت کو توڑنے والوں کی ابدی موت کا وسیلہ۔

جبکہ وہ دو ذرّے جنہوں نے پہلا قدم اٹھایا تھا ان کو دور کسی پہاڑ کی چٹان میں قیدِ حیات ملی ۔ وہ قیدِ حیات جو کچھ عرصہ بعد کسی نئے سیارے پہ ایک نئی وجۂ حیات بننے کا ذریعہ بنے گی۔ کیونکہ یہ سیارہ مدت پوری کر چکا ہے اب اسکے پانی کو شہابیے کی صورت میں کسی نئے سیارے پہ پھینک دیا جائے گا۔ اور یہ سیارہ اس کی ساری چہل پہل سب کو خاموشی  کا وہ بھوت نگل جائے گا جس کو ان دو ذروں نے ہرایا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آبِ حیات ہے کہ سیلِ رواں
منزل ہے جاری کہ رواں دواں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply