عرصہ ہوا ایک دفعہ میں اور میرا کزن گاؤں جاتے ہوۓ شدید برف باری میں پھنس گئے۔ ہم نے آدھا فاصلہ طے کر لیا تھا۔ کسی سواری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
رات ایک جگہ دوست کے ہاں گزار کر ہم نے پیدل ہی سامان سمیت آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ساری رات شدید برف باری اگلے دن بھی اُسی تال سے ہو رہی تھی۔ ہم دھیمی چال سے آگے بڑھتے رہے کہ ایسے موسم کی ہڈیوں میں اُتر جانے والی سردی میں قاعدہ یہ ہے کہ آپ کسی صورت رُک نہیں سکتے۔ اگر زیادہ دیر رک گئے تو پھر جسم جم جاتا ہے۔
مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں چونکہ سارے پہاڑ سفید چادر اوڑھے ہوۓ تھے، ہم رستہ بھٹک گئے۔ دور دور تک نہ کوئی آدم زاد اور نا ہی کوئی گھر۔ خیر ہم چلتے رہے کہ چلنا تو لازم تھا۔
رات تقریبا کوئی دس بجے کا وقت ہوگا کہ میرے کزن کا پیر پھسل گیا اور وہ نیچے کی طرف سامان سمیت جا گِرا۔ میرے پکارنے کے جواب میں نیچے سے ایک مدہم سی آواز آئی ۔ خدا کا کرنا دیکھیے کہ عین اگلے قدم پر میرا پیر بھی پھسل گیا اور میں ٹھیک اُسی جگہ جا پڑا۔
یہ وہ لمحات تھے جب ہمارے اندر ہمت کی آخری پونجی بھی ختم ہو چکی تھی۔ اعصاب اب جواب دینے کو تھے کہ عجیب ماجرا ہوگیا۔
کچھ دور لالٹین کی مدہم سی روشنی حرکت میں نظر آئی۔ ہم پوری قوت سے بمشکل اٹھے اور آواز لگائی۔ روشنی چند لمحوں کے لیے رُکی اور پھر واپس پلٹ گئ۔ ہمیں بس یوں لگا کہ اب آخری امید بھی ختم ہو گئ۔ مجھے یاد ہے اُس وقت ہمارے بیچ ایسا ہی مکالمہ ہوا تھا جیسے کسی ڈوبنے والے جہاز میں پانی بھر جانے کے بعد ہر اِمکان اور اُمید سے خالی کوئی اداس سا مکالمہ ہوا کرتا ہے۔
لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں عین اُسی جگہ سے چار پانچ ٹمٹماتی روشنیاں نکلیں اور دھیرے دھیرے بڑھنے لگیں۔ امید بھی عجیب محرک ہے۔ یہ ہمارے اندر کسی لو کی طرح دوبارہ جل اُٹھی۔
ہم انہیں آوازیں دے دے کر اپنے مقام کی نشاندہی کرواتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ ہم تک پہنچ گئے۔ ہمیں اٹھایا اور کافی مشکل سے اپنے گھر تک پہنچایا۔
وہ مٹی کا بنا ایک مکان تھا۔ محبتیں اپنے مخصوص طرز میں متحرک ہوئیں جو کسی مہمان کے لیے ہمارے شمال میں بسنے والوں کا خاصا ہے۔ آگ جلائی گئی اور دو دو رضائیوں سے ہمیں ڈھانپا گیا۔ چائے روٹی کھلائی گئی اور ہم میں جان آگئی۔ اُس کے بعد ہمیں محبت بھری ڈانٹ پلائی گئی۔
اگلے دن ہم دس بجے کے قریب جاگے۔ اعصاب بحال ہو چکے تھے۔ جونہی دروازہ کھولا تو چکمتی دھوپ میں ایک اُجلی سی صبح گویا ہماری دید کی منتظر تھی۔ آسمان صاف ہو چکا تھا۔ ہم ایک پہاڑ کی چوٹی سے تقریبا دو سو فٹ نیچے درختوں کی جھنڈ میں ایک مکان کی چھت پر بنے کمرے، جس کا صحن اُسی مکان کا برف سے ڈھکا چھت تھا، سے باہر آۓ۔ سبھی مکین چھت سے برف ہٹانے میں مگن تھے۔
وہ اُجلی سی صبح مَن پر ثبت ہوگئ۔ ایک استعارہ کہ جسے تب سے مَن میں لیے گھومتا ہوں اور اکثر صبحیں اُسی اجلی سی صبح کی کسوٹی سے پرکھتی گزر جاتی ہیں۔ راہ گزر کے سنگ میل جو نشان من پر چھوڑتے ہیں وہ یونہی بے سبب نہیں ہوتے۔
سفر ابھی باقی تھا۔ ہم تیار ہو لیے اور نیچے وادی میں اترنے کے لیے کمر کس لی۔ برف سے ڈھکی پگڈنڈیوں پر برفانی ہواؤں کی سریلی سی موسیقی میں دھیرے دھیرے نیچے اترتے ہم شام کو اپنی منزل پر پہنچ گئے جہاں پھوپھی ہمیں دیکھ کر پہلے حیران ہوئیں اور پھر ہلکی سی ڈانٹ سے ہمارا استقبال کیا۔ ایسی ڈانٹ جس میں ممتا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
رستے میں ایک جگہ میرے ایک پیر سے بوٹ اتر گیا تھا لیکن پیر سُن ہونے کی وجہ سے مجھے بالکل بھی احساس نہ ہوا۔ دورانِ سفر ایک جگہ کسی نے بوٹ دئیے۔ پھر ایک ماہ بعد جب پہاڑوں سے برف کچھ کم ہوئی تو وہی شخص میرا بوٹ میرے پاس لے آیا اور جاتے ہوۓ اپنے بوٹ واپس بھی نہیں لیے۔
وہ اُجلی سی صبح،
زندگی کے سفر میں اب مجھے جو جو کردار بھاتا جاتا ہے اُسے مَن میں سَجی اُسی اُجلی سی صبح کے کسی گوشے میں ٹھہرا دیتا ہوں۔ جو یہاں بَس چکے وہ یہاں سے پھر کبھی نہیں نکلے۔
Facebook Comments