لیگل-لائیز

قومی سلامتی اور سلامتی کونسل
امریکہ کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے کہ کسی بھی ملک یا گروہ سے جنگ اس وقت شروع کرتا ہے جب اس کے حالات جوابی حملہ کرنے کے قابل نہ ہوں یا یوں کہیے کہ سامنے والے کو جنگ سے پہلے ہی ہرا دیتا ہے،توڑ دیتا ہے،اندرونی انتشار کا شکار کردیتا ہے کہ پھر مدمقابل اپنا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکہ اس پالیسی پہ گامزن ہے جہاں قبضہ کرنا مقصود ہو وہاں حملے سے پہلے ہی پراکسی شروع کردیتا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں مشرق وسطی خصوصا عرب ممالک میں پھیلی نام نہاد تبدیلی کی وباء رفتہ رفتہ پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔نیو ورلڈآرڈر کے لیے امریکہ نے ہنستے بستے، خوشحال ،تیل کی دولت سے مالا مال اور سیروسیاحت کے اعتبار سے دنیا میں منفرد مقام رکھنے والے عرب ممالک کو تبدیلی کے ناخوشگوار موسم کا سامنا کرنے پہ مجبور کردیا،کہیں دہشتگردوں اور باغیوں کے خلاف حکومت کی مدد کے نام پہ تو کہیں آزاد خود مختار حکومتوں کے خلاف جمہوریت اور عوامی مفاد کے نام پر اپنے ناپاک ارادوں کو پایا تکمیل تک پہنچایا۔شام مصر اور لیبیا کی حکومتوں کے خلاف باغیوں کو ہتھیار اور جنگی سازوسامان فراہم کیا،پھر اتحادیوں سے مل کر خوشحال ترقی پذیر ممالک کو راکھ کا ڈیرھ بنادیا،عراق اور افغانستان میں نام نہاد کٹھ پتلی حکومتوں کی مدد کےلیے ہزاروں انسانی جانوں سے خون کی حولی کھیلی۔جنوبی ایشیا کی جانب اس بڑھتی ہوئی وباء کو ہماری بہادر ایجنسیوں نے وقتی طور پہ تو ناکام بنادیا لیکن موجودہ حالات میں دشمن نے وطن عزیز میں اداروں کو ایک دوسرے سے محاذ آرائی کی نوبت تک پہنچادیا ہے۔آخرکار امریکہ پاکستان میں دو گروہوں کو مدمقابل لانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔امریکہ کی حمایت یافتہ دو بڑی سیاسی جماعتیں دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو قومی سلامتی کے اداروں سے خدشہ ہے۔جس کی واضح نشانی ڈان لیکس،اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی،بے جا تنقید اور نفرت انگیز تقاریر ہیں۔کرپٹ اور نااہل حکمران اپنی کرپشن اور ڈاکہ زنی کو بچانے کےلیے ملکی سلامتی کو داو پر لگارہے ہیں۔شاید فی الوقت تو ان کا مقصد اداروں کو سلامتی کے نام پہ بلیک میل کر کے کوئی نیا این آر او منظور کروانا ہو سکتا ہے لیکن ان کی یہ کوشش ملک کے بیرونی دشمنوں کو ہمارے اندرونی معمالات میں مداخلت کا جواز فراہم کرنے معاون ثابت ہورہی ہے۔دہشگردی کے خاتمے کےلیے ہمارے اداروں کی قربانیوں اور کئی سالہ جدوجہد کو ناکام بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔امریکہ کی خطے سے متعلق نئی پالیسی ہماری سلامتی اور خودمختاری کےلیے خطرہ ہو سکتی ہے،ہمارے ایٹمی اثاثے عالم-اسلام کے دشمنوں کی آنکھوں میں کٹھکتے ہیں۔گزشتہ چار سالوں سے سفارتی سطح پہ حکومتی بے حسی اور موجودہ دشمن نما وزیرخارجہ اپنے ہی اداروں کے خلاف زہر گھولنے میں مصروف ہے۔ایسے وزیر خارجہ سے ملکی مفادات کے تحفظ کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔حکومتی وزراء کے ہر اہم عالمی موقعے پر غیرذمہ دارانہ اور قومی مفادات کے منافی بیانات عالمی برادری میں ہماری بدنامی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ تمام محب وطن ادارے،سیاسی جماعتیں اور شخصیات آگے بڑھ کر قومی مفادات کا تحفظ کریں اور پاکستان کی سفارتی تنہائی کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں۔قومی سلامتی کے ادارے اور ایجنسیاں ملکی دفاع کی آخری لکیر ہیں ان کے خلاف کسی طرح کی زباں درازی قابل-قبول نہیں ہونی چاہیے۔اندرونی معاملات اتفاق-رائے سے حل ہو جانے چاہیں  پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات قومی سلامتی کمیٹی سے نکل کر سلامتی کونسل تک  پہنچ جائیں۔

Facebook Comments

عامر صہیب
طالب علم،شاعر،مصنف اینڈ پولیٹیکل اینالسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply