منگول بچے، ڈاؤن سنڈروم، سائیں۔۔خطیب احمد

اگر آپ لڑکی ہیں۔ آپ کی عمر 35 سال ہو چکی ہے۔ آپ کی ابھی شادی نہیں ہو سکی، یا   شادی کے بعد ابھی آپ کسی وجہ سے ماں نہیں بن سکیں, تو یہ تحریر آپ کے لیے بڑی کارآمد ہے۔
کیا آپ جانتی ہیں؟ کہ 35 سال کی عمر اور جدید ریسرچز میں 33 سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی ماں بنتی ہے،تو بہت زیادہ چانسز ہیں کہ اسکا بچہ ڈاؤن سنڈروم پیدا ہوگا۔ کتنے چانسز ہیں آئیے دیکھتے ہیں۔
ماں کی عمر 20-24 سال 1/5000
ماں کی عمر 25-32 سال 1/1200
ماں کی عمر 33-35 سال 1/350
ماں کی عمر 40-36 سال 1/100
ماں کی عمر 45-41 سال 1/30

اسکے ساتھ ہی ماں کی کوئی بھی عمر ہونے پر اگر باپ کی عمر 40 سے زیادہ ہو تو اس کے ساتھ بھی ڈاؤن سنڈروم ہونے کا خدشہ ڈبل ہو جاتا ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی 40 سال کی عمر کے آس پاس ہیں تو بھی خدشہ ہے۔۔ اسکے علاوہ خاندان میں اسکی کوئی گزشتہ ہسٹری ہونا بھی ایک وجہ بن سکتی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہ ماں باپ کی عمریں بھی 30 سے کم ہوں کوئی ہسٹری نہ بھی ہو تو بھی کروموسومل ابنارمیلٹی سے ایسا ہو سکتا ہے۔ کوئی ایک وجہ ہم ساری پاپولیشن پر لاگو نہیں کر سکتے۔ مگر ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکنہ احتیاط ضروری ہے۔

زیرِ نظر تصویر میں موجود بچے کی شکل کا بچہ سو فیصد آپکی فزیکل آنکھ نے اپنے گلی محلے گاؤں میں دیکھا ہوگا۔ کیوں نہ دیکھا ہو؟ ان کی ریشو پیدا ہونے والے ہر 700 میں سے 1 بچہ ہے۔ پاکستان کی کل آبادی 21 کروڑ مان لیں۔ تو اس حساب سے تقریباً 30 ہزار ڈاؤن سنڈروم پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کی شکل منگولوں سے ملتی ہے اس لیے انکو منگول بچے بھی کہا جاتا ہے۔

میں انہیں گولو مولو کہتا ہوں۔  بہت پیار ہے  مجھے ان بچوں سے۔ سکول کے بچوں کے علاوہ بھی کوئی بچہ کہیں راستے میں یا دوران سفر مل جائے تو  میری کوشش ہوتی  ہے کہ اسے پیار  ضرور کروں یا اسکی گال پر پیار سے چٹکی کاٹ لوں اسے ممکن ہو تو اٹھا کر گلے لگا لوں۔ اور والدین کو اگر نہیں معلوم تو اسکی تعلیم کے بارے بتاؤں۔

ڈاؤن سنڈروم ہے کیا؟
جیسے ہی انسانی ماں کے رحم میں یا IVF کے ذریعے نطفے اور بیضے کا ملاپ ہوتا ہے۔ تو یک خلوی جاندار وجود میں آتا ہے۔ والد کی طرف سے ایک سپرم جو بیضے سے ملاپ کرتا ہے میں ننھی منی سی 23 چیزیں یا معلومات کے کوڈ ہوتے ہیں۔ یہی 23 معلومات کے کوڈ ماں کی اووری سے نکلے  بیضے میں بھی ہوتی ہیں۔ ان 23 ننھی منی چیزوں کو کروموسوم کہتے ہیں۔ نطفے و بیضے کے ملاپ سے دونوں طرف سے آنے والے کروموسوم ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر 23 جوڑے بناتے ہیں۔ زائیگوٹ میں 46 کروموسوم ہونا نارمل ہے۔ مگر ڈاؤن سنڈروم میں کروموسوم نمبر 21 جب اپنے مخالف سمت سے آنے والے دوست نمبر 21 سے ملتا ہے۔ تو جنیٹک میوٹیشن (تنوع) کی وجہ سے یہ دو کی بجائے 3 کروموسوم بن جاتے ہیں۔ اسے ٹرائی سومی یا T21 بھی کہتے ہیں۔

اب زندگی کے ابتدائی واحد سیل یا خلیے میں 46 کی بجائے 47 کروموسوم ہو گئے۔ یہ سیل سٹیم سیل یا بنیادی خلیہ ہوتا ہے۔ جو آگے تقسیم در تقسیم ہو کر دیگر سیل بناتا ہے۔ ہر بننے والے سیل میں یہ کروموسوم 47 ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ اور نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ کچھ مختلف جسمانی شکل و ساخت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ جو آپ پوسٹ کے ساتھ لگی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

ان بچوں کی پہچان کیا ہے؟
ناک چپٹی جسے پنجابی میں پھینی ناک کہتے ہیں۔
کان چھوٹے مگر کھڑے ہوئے۔
آنکھیں ابھری ہوئی اور باریک سی مگر بیرونی کناروں سے اوپر کو اٹھتی ہوئیں۔
گردن چھوٹی اور کافی موٹی۔
سر عموماً عام بچوں سے بڑا۔
مسکراتا ہوا چہرہ۔
عموماً یہ بچے نارمل سے قد میں چھوٹے اور موٹے ہوتے ہیں۔

ذہنی صلاحیت کتنی ہوتی ہے؟ دیگر مسائل کیا ہیں؟
دانشورانہ صلاحیت یا پسماندگی کی بات کریں تو انکا آئی کیو اکثریت میں 50-70 اور کچھ بچوں کا 35-50 تک ہو سکتا ہے۔ جو ایورج یعنی کم سے کم 70 اور زیادہ ہو تو عموماً 120 سے کم ہے۔ ان بچوں کو غور و خوض/فکر، منطق، ادراک میں کمی کے مسائل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ بولنے کے مسائل، دل کی دھڑکن کا تیز یا کم ہونا، دل میں سوراخ ہونا، والوز کا تنگ ہونا وغیرہ ان کے مشترکہ مسائل ہیں۔

یوں سمجھیے کہ ڈاؤن سنڈروم میں سے 50 فیصد کو دل کے مسائل ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے صرف 10 سے 15 فیصد کو کارڈیالوجسٹ یعنی دل کے ڈاکٹر سے علاج کی مد میں مدد درکار ہوتی ہے۔
اسکے علاوہ ان کو بے خوابی یعنی نیند کا بہت کم ہونا، الزائیمر، ڈیمینشیا، تھائی رائیڈ اور اسکن پر جلدی بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ان کے دانت بھی بہت چھوٹے سے رہ جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کو سخت چیزیں چبانے میں مسئلہ پیش آتا ہے۔

تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
حمل کے پندرہویں سے بیسویں ہفتے کے کسی ماہر ریڈیالوجسٹ سے کروائے گئے الٹرا ساؤنڈ سکین میں ڈاؤن سنڈروم کی شناخت ہو جاتی ہے۔ اگر اس سے پہلے شناخت کرنا چاہیں تو حمل کے 11 ہفتے سے 14 ہفتے میں ہی Chorionic villus sampling (CVS) ٹیسٹ سے ڈاؤن سنڈروم کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک الٹرا سونک سوئی ماں کے پیٹ میں داخل کی جاتی ہے۔ اور خوراک و آکسیجن کی نالی پلاسینٹا سے بلڈ سیلز کا سامپل لیا جاتا ہے۔ اس کا کوئی درد نہیں ہوتا عموماً 20 منٹ کا کام ہے۔ اس سے حمل کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

اگر وقت زیادہ گزر چکا ہو تو حمل کے 15 سے 18 ہفتے میں ایک اور ٹیسٹ Amniocentesis کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی الٹرا سونک سوئی رحم میں جاتی ہے۔ بچے کے گرد جھلی میں موجود پانی جسے لائیکر یا امنیاٹک فلیوڈ کہتے سے پانی کا ایک قطرہ نکالا جاتا ہے۔ اس میں بھی 20 منٹ لگتے  ہیں ،کوئی درد نہیں ہوتا۔ حمل کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔ بس یہ ٹیسٹ کسی قابل گائناکالوجسٹ سے کروائیں۔

ڈاؤن سنڈروم کی کنفرم تشخیص ہوجانے پر آپ اپنے مذہب عقائد فرقے کی تعلیمات کے مطابق اس حمل کو ختم بھی سکتے ہیں۔ یا جاری رکھ کر ڈاؤن سنڈروم بچے کو پیدا کر سکتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان میرے علم و مطالعہ کے مطابق گوشت کے لوتھڑے میں روح پھونکے جانے سے قبل ڈاکٹروں کے مشورے اور علما  سے رائے لیکر حمل ختم کرنے کی کچھ گنجائش موجود ہے۔ قرآنی و احادیث کی تعلیمات میں روح پھونکے جانے کی عمر حمل ٹھہر جانے کے بعد 4 ماہ یعنی 16 ہفتوں کا دورانیہ ہے۔ پہلے ٹیسٹ CVS گیارہویں سے چودہویں ہفتے تک تشخیص ہو جائے۔ اور اگر آپ حمل ختم کرنا چاہیں تو اپنے مذہب و عقائد کی بنیاد پر فیصلہ کر کے فتویٰ لے کر ایسا سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں 30 سے 40 فیصد ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہوجانے پر حمل ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس میں تمام مذاہب اور کسی مذہب کو نہ ماننے والے لوگ شامل ہیں۔

ان بچوں کی اوسط عمر 50 سے 60 سال ہے۔
ان کا عالمی دن 21 مارچ ہے۔

بچہ پیدا ہوگیاِ یا پتہ تھا ڈاؤن سنڈروم ہے، مرضی و خوشی سے پیدا کیا۔ اب کیا کریں؟

سب سے پہلا کام جو کریں۔ اس بچے کی پیدائش پر ویسی ہی خوشی منائیں ویسے ہی مٹھائی بانٹیں ویسا ہی عقیقہ کریں جیسے عام بچوں کی پیدائش پر کرتے ہیں۔ روئیں پیٹیں بالکل نہیں ، نہ  اس سے کچھ ہوگا۔ بچے کے جسم کے اربوں کھربوں سیلز میں سے ہر ایک سیل میں موجود 47 کروموسوم کو آپ دنیا بھر کی طاقت لگا کر بھی 46 نہیں کر سکتے۔ یعنی بچے کی جسمانی ساخت اور ذہنی استعداد جو بن چکی ساری عمر وہی رہے گی۔ آپ اسے پہلے دن سے توجہ دے کر بہت بہتر کر سکتے ہیں۔

اسکا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس سچ کو قبول کریں۔ لوگ اس سچ کو کئی سال بعد مانتے ہیں۔ علاج دم درود کرواتے رہتے ہیں۔ تب تک بچے کا مکمل بیڑہ غرق ہو چکا ہوتا ہے۔

ان بچوں کی زندگی کے پہلے 1000 دن انتہائی اہم ہوتے ہیں۔
پیدائش سے فوراً بعد سماعت اور بصارت کا ٹیسٹ کروائیں۔ فوراً دل کی دھڑکن چیک کروائیں۔ اسکا ریگولر ریکارڈ رکھیں۔ پہلے چھ ماہ کی عمر میں کارڈیالوجسٹ سے ملیں اور دل کے ممکنہ امراض کی تشخیص کروائیں۔ سماعت میں مسئلہ ہونے پر ضرورت ہو تو ایک ماہ کی عمر میں ہی اچھی کوالٹی کا سرٹیفائیڈ پروفیشنل سے آلہ سماعت لگوا لیں۔ بچہ ماں کی آواز سنے اور رسپانس کرے۔ جو سنے گا وہی بچہ بولے گا۔ ورنہ بہت لیٹ بولے گا۔

یہ ایک ڈیویلپمنٹل ڈس ابیلیٹی ہے۔ میرا ایم فل اسی میں ہے۔
ارلی انٹروینشن جتنی جلدی دینی شروع کریں گے،اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ اگر ارلی انٹروینشن نہ دی جائے تو یہ بچے تین سال تک کی عمر تک پہنچ کر نہ ٹھیک سے بولتے ہیں نہ ٹھیک سے چلتے ہیں۔ اگر انٹروینشن دے دی جائے تو تین سال کی عمر تک لکھنا پڑھنا بھی   شروع کر دیتے ہیں۔

ارلی انٹروینشن میں کیا کرنا ہے؟
ایک سال کی عمر سے پہلے آلہ سماعت اگر ضرورت ہو تو ہر صورت لگوائیں۔
ایک سال کی عمر سے ہی پانچوں حسیات کا استعمال کرنا سکھائیں۔ آکو پیشنل تھراپسٹ سے مدد لیں۔

ان بچوں کے مسلز اور ہڈیاں و جوڑ کمزور ہوتے ہیں۔ فزیوتھراپسٹ سے مشورہ کرکے جتنی جلدی ممکن ہو فزیوتھراپی شروع کروائیں۔ اور چند سال تک حسب ضرورت جاری رکھیں۔ بعد میں اسکی روٹین میں ریگولر سیر ورزش یا جم جانا یا کوئی گیم کھیلنا شامل کریں۔ ورنہ بچہ بہت موٹا ہوجائے گا۔ یا بہت کمزور ہوجائے گا۔
غذا ڈاکٹر کے مشورے سے دیں۔ ہر بچے کے مسائل مختلف ہو سکتے ہیں۔ نظام انہضام بھی کئی بچوں کا متاثر ہوتا۔

سکول میں انکی سوشل اسکلز، سیلف ہیلف سکلز یعنی اپنے کام آپ کرنا جیسے کپڑے پہننا، شوز بیلٹ پہننا تسمے بند کرنا برش کرنا بٹن بند کرنا وغیرہ سب سے پہلے سکھایا جاتا ہے۔
اسکے ساتھ بچے کی موٹر اسکلز، زبان دانی اور Cognitive پراسیسنگ کو بہتر کرنے پر کام کیا جاتا ہے۔

یہ بچے سپیشل ایجوکیشن یا جنرل مین اسٹریم ایجوکیشن جس میں ارلی انٹروینشن کے بعد نارمل بچوں کے ساتھ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ کچھ بچے ایجوکیبل ہوتے ہیں اور کچھ ٹرین ایبل۔ ان بچوں پر اگر دل سے محنت کی جائے تو ماسٹرز تک تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ابتدائی تین سے چار سالوں میں ارلی انٹروینشن دے کر انکو نارمل سکول میں پڑھایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں شعور کی کمی، اداروں کی کمی یا معلومات نہ  ہونے کیوجہ سے ان بچوں کی زندگی کے ابتدائی کئی سال ضائع ہوجاتے ہیں۔ تو وہ نقصان کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً یہ بچے گلیوں محلوں میں سائیں بنے پھر رہے ہوتے ہیں ۔ لوگ ان سے ٹھٹھہ مذاق کرتے انہیں چھیڑتے  ہیں ،یہ ان کو گالیاں دیتے یا انکے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ یوں ہی انکی عمر بیت جاتی ہے۔

پہلے دن سے بچے کو دل سے قبول کریں۔ جو میں نے اوپر لکھا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ بچہ نارمل کے قریب ترین زندگی گزارے گا۔ پنجاب کے ہر ضلع ہر تحصیل ہر ٹاؤن میں موجود سرکاری سپیشل ایجوکیشن سنٹر میں ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوست کیا گیا ہے۔ مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ ان بچوں  سے    ناکارہ سمجھ کر والدین کی طرف سے ہی ایسا غیر منصفانہ سلوک  کیا جاتا  ہےِ کہ رہے رب کا نام۔ والدین ایک تو آتے ہی  ان بچوں کو 6 سے 8 سال کی عمر میں لیکر ہیں۔ اور پھر سمجھتے  ہیں کہ اب یہ بچے سکول والوں کی ذمہ داری ہیں۔۔ہم آزاد ہیں۔ باقی بچوں پر پیسے بھی لگاتے ،ان کو توجہ بھی دیتے  ہیں ،مگر انکی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ داخلے کے بعد کبھی دوبارہ سکول نہیں آتے۔ اور اکثر ٹیچرز بھی پھر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف کہیں والدین دل سے توجہ دے رہے ہوتے تو ٹیچر نالائق یا ہڈ حرام ہوتا ہے۔ یا توجہ نہیں دیتا یا اسکے پاس بچے بہت زیادہ ہوتے  ہیں تو بچے کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔

ایک پوری ٹیم ان بچوں کو فعال کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ جن میں سائیکالوجسٹ سپیچ تھراپسٹ، میوزک ٹیچر، کلاس ٹیچر، ہر سکول میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ سرکاری سپیشل سکول کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ بچے کو کچھ نہیں کروایا جا رہا۔۔اسکا آئی ای پی IEP) Individualized Education plan) نہیں بنایا یا آپکو نہیں دیا گیا۔ نہ آپکو پتا ہے سکول والے کیا کروا رہے  ہیں،تو سکول جائیں۔  اُن سے پوچھیں کیا کروا رہے ہیں۔۔ہم کیا کریں، گھر میں بچے کے ساتھ؟ سکول پرنسپل سے ملیں اپنا معاملہ ڈسکس کریں۔ اور سکول والوں سے ملکر بچے کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں۔

یہ بچے فوٹوگرافی، سٹیج پرفارمنسز، ڈانس، ماڈلنگ، کشتی پہلوانی وغیرہ, پیرا اولمپکس گیمز میں بہت اچھا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔۔کسی بھی دفتر جنرل سپر سٹور میں انڈر سپر ویژن کامیابی سے ملازمت کر سکتے ہیں۔ اپنی ایجوکیشن اور خصوصیات کے مطابق سرکاری محکموں میں ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

آخری بات۔ ڈاؤن سنڈروم لڑکیوں کی شادی کر دی جائے تو انکے ماں بننے کے 50 فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ اور 50 فیصد ہی چانس ہوتے  ہیں کہ انکا بچہ بھی ڈاؤن سنڈروم ہی ہوگا۔
ڈاؤن سنڈروم مردوں میں باپ بننے کی صلاحیت بہت ہی کم ہے۔۔آپ اس بات کا اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں  کہ دنیا بھر میں اب تک معلوم کیسز میں صرف تین ڈاؤن سنڈروم مرد باپ بن سکے ہیں۔ شادیاں تو ہزاروں کی ہوئی ہیں۔

لڑکی کی شادی اگر ممکن ہو تو کسی دوسری مائنر ڈس ابیلیٹی کے ساتھ یا کوئی قبول کرے تو نارمل شخص سے کریں۔ کوشش کریں لڑکی بچہ نہ پیدا کرے۔ بس اپنے سسرال چلی جائے۔ جہاں بچوں کی ضرورت نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں والدین سے کہوں گا۔ بچیوں کی شادیوں میں غیر ضروری تاخیر نہ کریں۔  یہ واحد ڈس ابیلیٹی ہے جسکا ماں کی زیادہ عمر کے ساتھ ڈائریکٹ تعلق ہے۔ باقی بھی کئی ذہنی و جسمانی معذوریاں ماں کی عمر 33 سے 35 سال کے بعد حمل ہونے پر پیدا  ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر 33 سال کی عمر میں ماں بننے کا پلان کریں تو ضرور جنیٹک کاونسلنگ کروائیں۔ یہ کہاں سے کروانی اور کیا کرنا ہوتا  ہے،اس بارے بھی جلد تفصیل سے   لکھوں گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply