ادب نامہ۔ “ابلاغ” (مائیکرو فکشن)۔۔نیّر عامر

“یہاں آئیے! یہ دیکھیے! ہم آپ کو بتائیں گے، یہاں کتنی گندگی ہے۔ اتنے کوڑے میں کیا کیا غلاظتیں چھپی ہیں، ہم ہر ایک کی مکمل تفصیلات تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں، اگر کوئی آپ تک اصل حقائق پہنچا سکتا ہے، تو وہ صرف ہم ہیں، لہٰذا آخر تک ہمارے ساتھ رہیے گا۔”

وہ، لوگوں کی توجہ پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ گلی میں، ایک کونے پر غلاظت اور کوڑے کا ڈھیر سا بن چکا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے یہاں کس نے ڈالا ہے؟
وہ، اپنی چھڑی کی مدد سے اس ڈھیر کو کریدنے کے ساتھ ساتھ، لوگوں میں اس سے متعلق تجسس بڑھا رہا تھا۔

اس کے اس عمل سے مٹی کے نیچے دبی  ، کلبلاتے کیڑوں میں لتھڑی غلاظت، اوپر آ گئی تھی۔ اس کی چھڑی کی حرکت کے ساتھ ساتھ، اس میں لگی غلاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیل رہی تھی۔ لوگوں کا مجمع تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔
اس کی چیخ، پکار نے سبھی کو مشغول کر لیا تھا۔ لوگ بھول چکے تھے کہ وہ کس سمت میں جا رہے تھے؟ ان کی منزل مقصود کیا تھی، جس کا قصد کر کے وہ گھر سے نکلے تھے؟! آگے کیا ہونے والا ہے؟

ایک سمجھدار آدمی اپنی راہ چل رہا تھا۔ اس نے جب، یہ تماشا دیکھا تو بولا،
“ارے بھائی! یہ کیا کر رہے ہو؟ اس طرح تو یہ ایک طرف پڑی گندگی، ہر جگہ پھیل جائے گی۔۔۔۔ اور پھر اسے صاف کرنا، ناممکن ہو جائے گا، ایسے میں بارش برس گئی تو تعفن اور زیادہ پھیلے گا۔”
وہ فوراً تنک کر بولا، “پھیلتا ہے تو پھیلے, میری بلا سے! مجھے تو بس اپنا کام کرنا ہے۔۔۔ اور میرا کام ہے، اسے لوگوں تک پہنچانا!”

“نہیں بھائی! تمھارا کام یہ نہیں، جو تم کر رہے ہو۔ تمھارا کام تو لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ اس سے دور رہیں۔ ایسی راہ تلاش کرنا ہے کہ ڈھیر بننے سے بہت پہلے، ابتدا ہی میں اسے روکا جا سکے، اب جبکہ یہ ڈھیر بن ہی چکا ہے تو کچھ ذمہ دار افراد کی مدد سے اسے صاف کرنے کی تدبیر کرنا ہمارا اور تمھارا فرض ہے، نہ کہ اسے پھیلانا!”

Advertisements
julia rana solicitors

اس بات کو سن کر، وہ طیش میں آ گیا۔ چھڑی کو ایک طرف پھینک کر پیر پٹختا وہاں سے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد لوٹا تو اس کے ہمراہ، اسی کی “برادری” کے چند لوگ تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے پلے کارڈ اور بینر پکڑے ہوئے تھے۔ جن پر درج تھا،
“آزادیء اظہار رائے پر قدغن، ناقابلِ برداشت ہے!”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply