آپ نے زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہوں گے ،ظاہری بات ہے کہ ہم سب انسان ہیں تکلیفیں اور مصیبتیں تو ہمارے نصیب میں لکھی ہیں۔
ایف ایس سی میں کیسے پہنچے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ میٹرک کے نتیجے تک اللہ میاں سے یہی دعا کررہے تھے”یا رب عزت رکھنا رشتہ داروں میں۔”اور پھر دعا قبول ہوگئی ہم پاس ہوگئے۔ گھر میں خوشی کے شادیانے بجے کہ بچہ اب ایف ایس سی کریگا۔ میری سانس رک گئی کہ میٹرک میں فزکس، حساب اور کیمسٹری کے پرچے ہم نے کیسے پاس کیے ہیں، یہ ہمارا رب جانتا ہے یا فوٹو اسٹیٹ والا جس سے مائیکرو فوٹوسٹیٹ کروا کر وہ سارے صفحات ہم نے قمیض کے دامن کیساتھ ٹیپ سے چپکا کر یہ معرکہ انجام دیا تھا۔ اب والدین بضد کہ بچہ ایف ایس سی کرکے آگے جائے گا۔ ابا کی خواہش تھی انجینئر بنوں، مگر اماں کہہ رہی تھیں ،کیا میرا بیٹا اب میرباز خان راج مستری کی طرح ہاتھ میں ہتھوڑے اٹھاکر کام کرے گا ،یا شریف خان الیکٹریشن کی طرح گلے میں پلاس لٹکائے اچھا لگے گا،میں تو اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بناؤں گی۔
یہاں بھی جیت حسبِ روایت بیگم کی ہوئی ،ابا پسپا ہوئے، یوں ہم پری میڈیکل میں داخلہ لے بیٹھے۔ میں جو پہلے فزکس اور کیمسٹری سے خار کھائے بیٹھا تھا، اب بائیولوجی بھی ان میں شامل ہوگئی۔
میٹرک تک اردو میں پڑھتے رہے،اب اچانک کتابیں انگریزی میں،پہلے ایک سال تک خود کو یقین دلاتا رہا کہ واقعی یہ کتابیں انگریزی میں ہیں ،اگلے سال کے اختتام تک میں ذہنی طور پر تیار ہوچکا تھا کہ مجھے پڑھنا ہے کہ، امتحانات سر پر آگئے۔ اردو، انگریزی، اسلامیات اور بائیولوجی کے پرچے تو جیسے تیسے حل کردیئے اور فزکس و کیمسٹری کیلئے ایک باہر کے لڑکے کی خدمات حاصل کی گئیں۔
رزلٹ آیا تو پانچ سو دس نمبر آئے ،جبکہ میڈیکل کیلئے اس زمانے میں آٹھ سو بیس نمبر لینا ضروری تھے۔ گھر آیا ابا نے ہاتھ بھی نہیں لگایا صرف ڈنڈے لگائے۔ اماں نے وہ رونا دھونا مچایا جیسے اللہ نہ کرے ان کو طلاق مل گئی ہو۔ ابا نے آخری وارننگ دی کہ اب دوبارہ امتحان دینا ہوگا اور آٹھ سو بیس نمبر لینے ہوں گے۔ اگر نہیں لئے تو تیرے جیسے بے غیرت کی کم از کم میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں، سیدھا فوج میں بھیج دوں گا-
دوبارہ امتحان میں بٹھا دیا گیا۔ رزلٹ کے دن تک یہی دعائیں مانگ رہا تھاکہ یا اللہ یا تو والدین کے دل میں رحم ڈال دے اور جو یہ ممکن نہیں تو مجھے اپنے پاس بلا لے،کہ اس زندگی سے تو کتے والی زندگی اچھی ہے۔ باخدا ہمیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ کتوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔ بیرسٹر انعام رانا کے کتے کی عزت دیکھ کر اپنے انسان ہونے پر ہمیشہ رونا ہی آیا۔
رزلٹ آیا تو ہم گیارہ سو میں سے چار سو ٹھاون نمبر لیکر پھر میڈیکل سے رہ گئے۔ خیر اب اپنے منہ سے کیا بتاؤں کہ اس دفعہ میرے ساتھ کیا ہوا۔۔ بس یہ بتا سکتا ہوں کہ گھر سے دو ماہ غائب رہا۔ دو ماہ بعد ابا واپس گھر لیکر آئے تو آتے ہی فیصلہ کیا، اب چاہے دنیا ادھر سے اُدھر ہوجائے ،فزکس اور کیمسٹری کی کتاب کو ہاتھ لگانا بھی کفر سمجھوں گا۔
2005 میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد اماں کو بتایا کہ مبارک ہو آپ کا خواب پورا ہوگیا ،بیٹا آپ کا ڈاکٹر بن گیا۔ اماں نے سرد آہ بھری کہ ایسی ڈاکٹری سے تو اچھا ہے کہ کسی ڈاکٹر کا کمپاؤنڈر بن کر آجاتے،گاؤں میں لوگوں کو انجیکشن لگا کر میری عزت بڑھا دیتے۔

ہمارے گاؤں کے لوگوں کی سوئیاں چبھوانے کی عادتیں پتہ نہیں کب جائیں گی۔ ظاہری بات ہے کہ ہم سب انسان ہیں تکلیفیں اور مصیبتیں تو ہمارے نصیب میں لکھی ہیں۔ ہم سے اچھا تو بیرسٹر انعام رانا کا کتا ہے جو بستر پر سوتا ہے، منہ سے منہ لگاکر چمیاں کرتا ہے،روز اس کو عزت سے کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ آنجناب کو فزکس و کیمسٹری بھی نہیں پڑھنی پڑتی۔۔اور تو اور اس کی بیوی بھی نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں