فلسطین (16) ۔ جنگ کے اثرات/وہاراامباکر

چھ روزہ جنگ مختصر تھی لیکن اس کے اثرات طویل مدت تھے۔ اسرائیل کا مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں اور غزہ پر قبضہ ابھی تک جاری ہے۔ لیکن اس نے خطے کی پوری سیاست کو بدل دیا۔ یہ ناصر ازم اور پان عرب ازم کے نظریاتی زوال کا باعث بنا۔ اس کے بعد عرب طاقت کا توازن رفتہ رفتہ شفٹ ہو کر مصر سے سعودی عرب چلا گیا۔ امریکہ اور سوویت یونین کی خطے میں دلچسپی بڑھ گئی۔
حافظ الاسد نے سیریا میں حکومت کا تختہ الٹا کر 1970 میں اقتدار حاصل کر لیا۔ (آج باون برس بعد بھی انہی کے بیٹے بشار الاسد کے پاس ہے)۔
اسرائیل نے جتنے علاقے حاصل کئے تھے، اس سے اس کا رقبہ تین گنا ہو گیا تھا۔
اس جنگ کا ایک اثر یہ ہوا کہ عرب اسرائیل تنازعہ کمزور پڑ گیا اور اسرائیل فلسطین تنازعہ زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔
اس جنگ کے بعد عرب لیگ کی کانفرنس خرطوم میں ہوئی جہاں پر عرب لیڈروں نے اسرائیل سے تین مشہور “نہیں” پر اتفاق کیا۔ “اسرائیل سے امن نہیں”، “اسرائیل کو تسلیم نہیں”، “اسرائیل سے مذاکرات نہیں”۔ اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ان زمینوں کو خالی کر دے جن پر چھ روزہ جنگ میں قبضہ کیا ہے۔ یہ بڑی تبدیلی اس طرح تھی کہ اس سے قبل یہ مقصد “آزادی فلسطین” تھا۔ عملی طور پر پہلی بار ان “تین انکاروں” کی پالیسی کے ساتھ ہی عرب قیادت نے اس جنگ کے بعد اسرائیل کو اور اس کی 1948 کی جنگ کے نتیجے میں کی جانے والی زمین پر قبضے کو تسلیم کر لیا تھا۔
بادلِ نخواستہ، اسرائیل کو حقیقت کے طور پر مان لیا گیا تھا۔ اب مقصد اس سے اپنی زمینوں کی واپسی کا رہ گیا تھا۔ اور اس کے لئے مذاکرات ہی کئے جانے تھے۔
مصر کے انوار سادات نے 1979 میں اسرائیل سے امن معاہدے پر دستخط کر دئے۔ اسرائیل نے سینا میں آبادکار بسانا شروع کر دئے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل نے یہ بستیاں خالی کر دیں۔ سینا کا علاقہ مصر کو واپس کر دیا گیا۔ اردن نے اسرائیل سے امن معاہدہ 1994 میں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطین میں نیشنلزم ڈویلپ ہونے لگا۔ خاص طور پر مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کا مارشل لاء قابلِ قبول نہیں تھا۔ آزادی اظہار، پریس کی آزادی، سیاست کی آزادی نہیں تھی۔ فلسطین کا جھنڈا لہرانا قابلِ گرفت جرم تھا۔ اس کا نتیجہ الفتح، پاپولر فرنٹ اور دوسرے عسکریت پسند گروپس کی صورت میں نکلا۔
الجیریا میں فرانس کے خلاف آزادی کی جنگ جیتی گئی تھی۔ ویت نام میں ایک سپرپاور کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ یہ مثالیں فلسطینی تنظیموں کی راہنمائی کر رہی تھیں۔
اردن کی آبادی کا دو تہائی اب فلسطینی تھے۔ اردن میں پی ایل او کا ہیڈکوارٹر قائم ہوا۔ یہاں سے اسرائیل پر گوریلا حملے کئے جاتے۔ ان کا بھاری جواب آتا جو اردن کے لئے تباہ کن تھا۔ پی ایل او اردن کی آزادی کو بھی چیلنج کر رہی تھی۔ اردن کے شاہ حسین اور پی ایل او کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ اس وجہ سے ستمبر 1970 میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جو جولائی 1971 تک جاری رہی۔ اس دوران ہزاروں فلسطینی قتل ہوئے اور پی ایل او کو اردن سے لبنان کی طرف دھکیل دیا گیا۔ فلسطینی اس واقعہ کو “سیاہ ستمبر” کہتے ہیں۔
(پی ایل او سے نکلنے والے ایک گروپ نے یہی نام اپنایا۔ ان کی وجہ شہرت 1972 میں میونخ اولمپکس سے گیارہ اسرائیلی ایتھلیٹ اغوا کرنا تھا۔ ان کو چھڑوانے کے آپریشن میں یہ مارے گئے۔ اس کو دنیا بھر میں دکھایا گیا اور یہ واقعہ Munich massacre کہلاتا ہے)۔
پی ایل او کو اقوامِ متحدہ میں 1974 میں “مستقل مبصر” کی حیثیت مل گئی۔ لیکن ابھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے میز تک آنے میں وقت لگنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سیریا اور مصر کو تو علاقے واپس کر دئے لیکن مغربی کنارہ اپنے پاس رکھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جس کو اسرائیل اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اسرائیل نے تمام مقبوضہ علاقوں میں آبادیاں بنائیں لیکن سب سے زیادہ مغربی کنارے میں۔ اس نے اسرائیلی آبادکار انتہاپسندوں کے سیاسی اور مذہبی گروپ کو جنم دیا جو اسے علاقے کو اسرائیل کا حق سمجھتے ہیں۔ اور یہ گروپ فلسطینیوں کو کسی بھی رعایت دینے کا مخالف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،
جب اسرائیل پیراٹروپر دستے نے مشرقی یروشلم کے پرانے شہر پر قبضہ کیا تو اس پر اسرائیل میں جشن منایا گیا۔ اسرائیل نے اس کا ڈی فیکٹو الحاق کر لیا۔ مغربی اور مشرقی یروشلم کو ملا دیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ (فلسطین اور اسرائیل اس شہر کو اپنا دارالحکومت کہتے ہیں)۔
اسرائیل کے 1967 میں قبضہ کئے گئے علاقے ۔۔۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ اور غزہ ۔۔۔ اور ان میں آبادیوں کا پھیلاوٗ اب اس تنازعے کا تمام فوکس ہیں۔ فلسطینیوں کا اسرائیل سے جھگڑا ان پر ہے۔ ان پر لڑائی کی گئی ہے۔ بہت سے جانیں جا چکی ہیں۔ 1967 کی جنگ نے اس تنازعے کو شکل دی اور وقت کے ساتھ سمٹ کر یہ اسرائیل فلسطین تنازعے تک محدود رہ گیا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ لگی تصویر خرطوم کانفرنس میں انیس اگست 1967 کی۔ اس کانفرنس میں مشہور “The three no’s” پر اتفاق ہوا تھا۔ تصویر میں سعودی عرب کے شاہ فیصل، مصر کے جمال عبدالناصر، یمن کے عبداللہ السلال، کویت کے صباح سوئم اور عراق کے عارف الجمیلی نظر آ رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply