دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل “فلسطین کا غزہ”۔۔منصور ندیم

میں اور میری بیوی سارہ اپنی آنکھوں میں آنسو لئے اس وقت ان کے استقبال کے لئے کھڑے تھے، جب ہمارے تارک وطن ایتھوپین یہودی بھائی، جہاز سے اتر رہے تھے، اور جہاز سے نیچے پہنچ کر اس مقدس اسرائیل کی زمین کو چھو رہے تھے، جنہوں نے ایک خواب کے طویل انتظار کو چاہا اور آج اس احساس کو پالیا ۔

,” Mr Netanyahu said in a statement،
My wife Sarah and I stood there with tears in our eyes at the welcoming, “when we see the immigrants, our Ethiopian Jewish brothers, leave the plane… come down and touch the ground, the land of Israel.
“You waited so long to realise the dream and today it is being realised.”

یہ الفاظ اسرائیل کے پرائم منسٹر بینجمن نیتن یاہو کے ہیں، جب 3 دسمبر سنہء 2020، کو ایتھوپیا سے یہودی نسل کے ایتھوپین کی اسرائیل کی سرزمین پر واپس لوٹنے کے لئے آنے والی پہلی فلائٹ کے 316 مسافروں نے اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایتھوپیا کے کیمپوں میں زندگی گزار رہے تھے، ایک عرصے سے ایتھوپیا کے کیمپوں میں رہنے والے وہ یہودی کمیونٹی جو وہاں پر “Falash Mura” کے نام سے جانی جاتی ہے ، جنہوں نے بھوک ، پریشانیوں، اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے یہودیت مذہب ترک کرکے عیسائیت کو قبول کیا تھا، مگر اسکے باوجود انہیں ایتھوپیا میں شناخت کا مسلہ رہا، اور ایک عرصے سے ہونے والی اسرائیلی تدابیر سے آخر کار پچھلے کچھ عرصے سے 2000 ایتھوپیائی یہودیوں کو بالآخر اسرائیل کی سرزمین پر بلائے جانے کا عمل شروع ہوگیا۔ ایتھوپیا یہودیوں کے Falash Mura کمیونٹی کے 16٫600 تارکین وطن نے اسرائیل کے لئے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جن میں سے فی الوقت دوہزار کی منظوری ہوئی اور پہلے 316 افراد کے بعد گزشتہ کل 4 دسمبر کو بھی 100 افراد پہنچے ہیں ، اور جنوری سنہء 2021 کے اواخر تک یہ دو ہزار افراد نا صرف اسرائیل پہنچ جائیں گے بلکہ انہیں ہیں اسرائیل شہریت کے تمام بنیادی حقوق بھی دے گا۔ اسرائیل نے ایتھوپیائی یہودیوں کے لئے ایک کارنامہ تو انجام دے دیا کہ جنہیں بد حالی، معاشی تنگ دستی، اور شناختی مسائل کا سامنا ایک زمانے سے تھا۔

بحثیت ایک انسان مجھے خوشی ہے کہ کسی مذہب یا شناخت کو اس کی مرضی اور آزادی سے کسی ملک میں رہنے اور بنیادی حقوق کے ساتھ جینے کا حق مل رہا ہے۔ مگر یہی اسرائیل کا وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو جو ایتھوپیا کے یہودیوں کا اتنا درد رکھتا ہے ،جس کی نم آنکھوں میں ان ایتھوپیائی یہودیوں کے لئے آنسو چمک رہے ہیں، کیا اسے فلسطین میں غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی جو انسانی ہمددردی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں، ان کی تکلیف کیوں نظر نہیں ارہیں؟ یہی سب کچھ اسرائیل 370 مربع کلو میٹر پر محیط غزہ کی پٹی پر بسنے والے ان بیس لاکھ فلسطینیوں کو کیوں نہیں دینا چاہتا ، جن کے نسلوں نے اسمٹی سے جنم لیا، جن کی روایات، اقدار ، ثقافت اور آباؤ اجداد کی قبریں تک صدیوں سے اس زمین اور اس خطے سے جڑی ہوئی ہیں۔ غزہ کی پٹی کی صورتحال انسانی المیے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
کیا غزہ میں بسنے والے 2 ملین فلسطینیوں کو باعزت زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے؟ اور کیااسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غزہ کے عوام کو ایسی ہی مشکلات سے دوچار کرے۔ جیسی مشکلات کم و بیش ایتھوپیائی یہودیوں کو تھی؟
کیا اسرائیل کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ غزہ کی پٹی میں بنیادی انسانی ضرورت کی اشیاء کی ترسیل کی اجازت دینے کےساتھ غزہ کے عوام کی نقل وحرکت کی اجازت دے تاکہ بے روزگاری کے خاتمے اور علاقے میں معاشی بحران کے حل کی راہ ہموار ہوسکے؟

مجھے اس وقت دنیا میں تقسیم ریاستی انسانوں اور عربوں سے گلہ نہیں ہے ہاں یہ درست ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے مسائل شاخ در شاخ پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی مسئلے کا تعلق تمدن کے کاررواں کی ہمرکابی سے ہے تو کسی مسئلے کا تعلق موجودہ مسائل کے حل سے ہے تاہم عربوں او رمسلمانوں کا بنیادی مسئلہ فلسطین ہی کا ہے۔ یہ نہ بھلایا گیا ہے اور نہ بھلایا جاسکتا ہے۔ یہ جدید تاریخ کا قدیم ترین ایسا مسئلہ ہے جو اپنے حل کا منتظر ہے۔ اس مسئلے پر 70 برس سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اسے حل کرنے کے حوالے سے امن معاہدے مدوجزر کا شکار رہے ہیں۔ افق پر اسکے حل کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ۔اسکے برعکس اس مسئلے کے حل میں پیچیدگیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مبنی برانصاف جامع حل مشکل ہوگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اسے نافذ کیا جاسکتا ہے لیکن نفاذ کے حالات ہمیشہ اسرائیل کے حق میں نہ ہونے کے باعث حل نافذ نہیں ہوتا۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف اسکے مفادات کا ترجمان ہو۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اہل حق اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں۔

دنیا بھر کے 250 سے زیادہ ادیبوں اور فنکاروں، بشمول پیٹر گیبریل، ڈائریکٹر کین لاؤچ اوراداکار ویگو مورٹنسن نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل‘ میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تباہ کن اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ سے بہت پہلے ہی اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2020 تک غزہ کی ساحلی پٹی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے گی۔ موجودہ بحران سے پہلے ہی اسرائیلی محاصرے میں بنیادی سہولیات نہ مل پانے کی وجہ سے غزہ کے ہسپتال مریضوں کا علاج کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایسے میں گنجان آباد غزہ میں کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز کی رپورٹس بہت تشویشناک ہیں۔ غزہ کے بیشتر رہائشی ایسے ہیں، جن کی حالت بہت خراب ہے۔

کیا ایسے وقت میں ہم عثمانیوں اور عربوں کے ماضی کے جھگڑے سنائیں گے، اگر اسرائیل کو حقہے کہ وہ دنیا بھر میں موجود یہودیوں کو ریاستی شناخت دیتا ہے، ہولوکاسٹ کے مظالم کو کلام ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے تو کیا ہم دنیا کے منصفوں سے فلسطین میں محصور غزہ کے دو ملین لوگوں کے حقوق کی بات نہیں کرسکتے ؟

جہاں غزہ کی لگ بھگ نصف آبادی بے روزگار ہے۔ اس تعداد میں 30 سال سے کم عمر کے ہر دس میں سے سات نوجوان ایسے ہیں جن کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے۔ ان میں چار لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی کے گریجوایٹس ہیں جو کوئی ملازمت تلاش نہیں کر سکتے۔ جہاں اس وقت نا امیدی کی ایک فضا طاری ہے۔ لوگ صبح اٹھتے ہیں۔ موبائل فون پر جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں ان کی اپنی عمر کے لوگ سفر کر ر ہے ہیں۔ تقربیات میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ مزے کر رہے ہیں۔ ان کے پاس کاریں ہیں۔ ملازمتیں ہیں۔ لیکن غزہ میں ان محصورین کے پاس خواب تک نہیں ہیں۔ حالات نے ان سے خواب بھی چھین لیے ہیں۔

غزہ میں بیشتر لوگوں کے پاس کھانے کو مناسب خوراک نہیں ہے۔ وہاں کے تمام گھرانوں میں سے 60 فیصد کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غزہ میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جا چکی ہے۔ ادویات، طبی سامان اور آلات کی ترسیل کم ہو چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شديد بیماریوں میں مبتلا لوگ اپنا علاج نہیں کروا سکتے۔اسرائیل مخالف مظاہروں کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہونے والے ہزاروں لوگوں میں سے بہت سوں کو اپنے اعضا کاٹے جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اعضاء کو کٹنے سے بچانے کے لیے جن ادویات، طبی آلات اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے وہ دستیاب نہیں ہیں۔

دنیا میں انسانیت کے ٹھیکدار کہلانے والے کئی ممالک فلسطینی مسلمانوں کے لئے کی جانی والی چئیرٹی تنظیموں تک پر پابندیاں لگارہے ہیں اقوام متحدہ کی اپیل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کا بیشتر حصہ صرف خوراک، پانی اور حفظان صحت، صحت کی دیکھ بھال اور جنسی بنیاد پر ہونے والے تشدد یا امتیازی سلوک سے بچاؤ اور دوسری اہم ضروريات پر خرچ ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماضی میں جیسے اسرائیل میں لوگوں کو آباد کیاگیا ، آج پھر پوری دنیا سے یہودیوں کو جمع کرکے اسرائیل میں تو، آباد کیا جارہا ہے، مگر کیا انسانی ہمدردی, انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر جس طرح ایتھوپیائی یہودیوں کو ایک ریاستی شناخت دی جارہی ہے، فلسطین میں غزہ میں محصور 2 ملین مسلمانوں کا کوئی ایسا اخلاقی اور انسانی حق نہیں ہے ؟

Facebook Comments