سر سبز و شاداب پاکستان۔۔۔۔نصیر اللہ خان

پاکستان کی ترقی و خوشحالی سرسبز و شادابی میں مضمر ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے پیش نظر ہریالی اور ہرا بھرا پاکستان سب کیلئے اچھا اور نیک شگون ہے۔ جہاں ہر طرف ہریالی ہو ،کھیت کھلیان  ہوں ۔ سینکڑوں میلوں پر جنگلات اور دریا کے کنارے درخت ایستادہ ہوں۔ سڑک کے کنارے اور بیچ میں پھول اور درختوں کے  پیڑ ہر طرف دکھائی دیتے  ہوں اور اطراف میں مناسب جگہوں پر پھول اور درخت لگے ہوں ۔ اس طرح کا عمل اور اقدامات کسی بھی مہذب قوم کی اچھی سوچ اور بہترین ذہن کی عکاسی کرتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ خوش نما ءاور خوش کن اثرات لیے ہوئے جتنے فائدے ہریالی،پودوں اور درختوں کے موجود ہیں شاید ہی کسی اور چیز کے پائے جاتے ہوں۔ اس سے اگر ایک طرف خوشحالی اور پرسکون ہونے کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف ماحول دوست ہونے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ چرند   پرند کیلئے ٹکانے کا بندوبست ملتا ہے اور اس طرح دھرتی کے قدرتی ماحول کو بچایا جا سکتا ہے۔

اگر ہم بنظر غائر دیکھیں  تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح خیبر پختونخوا حکومت نے بلین ٹری سونامی کا منصوبہ بنایا اس کے اثرات دھیرے دھیرے آنا شروع ہو چکے ہیں ۔ مثال کے طور پر پچھلے سال کنوؤں اور دریائی نالوں کے پانی کا بیشتر حصہ خشک ہو چکا تھا لیکن خوش قسمتی سے اس سال زیادہ بارشیں ہونے سے کنوؤں میں پھر سے پانی بھر گیا۔ دریا اور ندی نالوں میں پانی امڈنے لگا۔ الپائن لیکس بھرگئے۔ قدرتی مناظر مزید دلکش اور خوشنما بن گئے۔ میرا خیال ہے کہ حکومتی  سطح  پر اس منصوبہ کو مزید بہتر کیا جانا چاہیے اور اس پر جنگی بنیادوں پر کام مزید تیزہونا چاہیے۔ اگرچہ حکومت اس منصوبہ پر مخلص دکھائی دیتی ہے لیکن دیگر منصوبوں کی وجہ سے اس منصوبے کی  طرف کم ہی توجہ دی  گئی  ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر موجودہ حکومت صرف مذکورہ منصوبہ تکمیل تک پہنچائے تو شاید اگر وہ کوئی اور کام بھی نہ کرے تو ان کے نیک نامی کے لئے   صرف یہی ایک منصوبہ کافی ہو گا اور آنے والی نسلوں پر اس حکومت کا ایک احسان تصور ہوگا۔ حکومتی توجہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ اقتصادیات نےدنیا کی ماحولیاتی آلودگی خصوصاًپاکستان کی فضا پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اس مذکورہ منصوبہ سے اس میں کمی آئیگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گرین پاکستان ، پاک وصاف ماحول انسانوں کے علاوہ حیوانوں، چرند   پرند کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ ایک صحتمند اور پاک ماحول میں سانس لے سکیں ۔ مذہبی لحاظ سے بھی صفائی، پھل، پودے  اور ہریالی ضروری ٹھہرائی گئی ہے۔ ایک ایک پتا اللہ تعالی کے  ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کی وجہ سے انسانوں پر بھی خدا تعالی کی نعمتوں کا اتمام اپنے  انتہائی درجہ پر مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جو کھیت کھلیان یا دیگر جگہیں جو زراعت کے قابل ہیں ان کو آبادی، بازاروں اور مارکیٹ بنانے سے بچایا جا سکے۔ زراعت کو جدید بنیادوں پر ترقی دی جانی  چاہیے۔ جنگلات کو تحفظ دے کر الپائن لیکس اور قدرتی وسیلے جہاں کہیں بھی موجود ہو ں دریا ؤں، ندی وغیرہ کے دونوں اطراف پر انسانی فضلہ اور سوریج سسٹم کے گندے پانی کےنکاس کے لئے ان سٹریم )پینے کے پانی ( اور گندی  پانی کے نکاسی واٹر چینلز ایک طرف آبی حیات کے تحفظ اور دوسری طرف زراعت کے لئے مفید و ضروری ہوگا ۔اس کے علاوہ ماحول اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات ہماری اولین ترجیحات میں سے ہونی چاہیے۔ منصوبہ بندی ہونی چاہیے کہ کس طرح جہاں مناسب ہو ہر ایک گھر میں ایک خاص تناسب کے حساب سے پھول، پودے اور درخت لگائے جاسکیں ۔ اس کے علاوہ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے راستے بھی ہرے بھرے بنائے جا سکتےہیں۔ نکاسی آب اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کیلئے جگہ مقرر کی جانی چاہیے ۔ جتنا ہم صفائی اور جنگلات کا تحفظ کر ینگے اس کےاتنے ہی بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس سے اگر ایک طرف ماحول پر اچھا اثر پڑے گا تو دوسری طرف انسانوں اور چرند پرند  پر بلکہ پورے معاشرے پر اس کے  خوشگوار اور صحتمند اثرات مرتب ہونگے۔ سائنسی طور پر مستند شدہ منصوبوں کے تحت بنجر، بارانی اورصحرائی علاقوں میں بھی پھل ، پودوں اور درختوں کو اگایا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس کیلئےحکومت توجہ سےمذکورہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔۔
حکومت کو چاہیے  کہ دریاؤں کےدونوں کناروں پر درختوں کو  اگانے کا عمل شروع کیا جائے اور بعد ازاں پہاڑوںمیں ایستادہ درختوں  کو تحفظ دیا جائے اور مزید درخت گائے  جائیں ۔ اس نسبت میرا خیال ہے کہ جو پہلے سے اُگے ہوئے درخت ہیں  ان میں سے بیج کو لے کر انہی جگہوں میں صرف انہی مذکورہ درختوں کو جنگلات میں تبدیل کیا جائے۔ نیز جنگلات کے تحفظ کیلئے فارسٹ محکمہ کو ریگولرائز کرنے کیلئے اس کے اوپر چیک اینڈ بیلنس کا ایک بہترین نظام بنایا جائے۔ ملک کے تمام جنگلات میں درختوں کا حساب کتاب لگایا جائے۔ مثال کے طور پر سال میں کتنے درخت از خود لگے ہیں اور کتنے حکومت کے منصوبے کے تحت لگانے ہے یا لگ چکے ہیں۔ایسے درختوں کو نمبر دیا جانا چاہئے ۔ اس کام کے لئے مقامی آبادیوں کو اعتماد میں لیا جائے اور وسائل فراہم کرکے اس کے تحفظ کی ذمہ داری دی جائے۔ اس سلسلے میں حیوانوں کو جنگلات سے دور رکھنے کا ایک میکینزم بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان چارپاؤں  کیلئے ایسے جگہیں مختص کی جائیں  کہ جس سے ان حیوانوں کے لئے چارے کا خاطر خواہ انتظام موجود ہو۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے زراعت جو کہ ہماری ملکی اکانومی کو ایک خاص حد تک کندھا دے رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ حکومت زرعی اجناس کو وافر مقدار میں دوسرے ملکوں سےبر آمد کر رہی ہے ۔ حالیہ بحرانی اقدامات کی  وجہ سے زراعت زبوں حالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایک طرف روزمرہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف زرعی زمینوں کو بوجوہ  بالا مارکیٹوں اور بازاروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس سے ایک طرف اگر ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری طرف قدرتی طور پر گرمی بڑھنے سے گلیشئر پگھلتے جا رہے ہیں ۔ اس کی  وجوہات جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔ سادہ طریقے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب ایک طرف بھٹہ خشت اور موٹر گاڑیوں سے نکلتا ہوازہریلا دھواں درختوں، جنگلات، پانی اور ماحولیاتی فضا کو آلودہ کرتی ہے تو دوسری طرف اس وجہ سے بیماریوں کے مختلف قسم کے امراض کا سبب بھی بن رہاہے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ماحول دوست سر سبر و شاداب پاکستان۔
آپ کو پتا ہے کہ ایک درخت کے اگانے سے بہت سارے فائدے سمیٹے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ ایک درخت سالانہ بیس ٹن اے سی جتنی ہوا دیتا ہے تو دوسری طرف ایک سروے کے مطابق ملکی اکانومی کو سالانہ 40000 ڈالر کا فائدہ بھی دیتا ہے  ۔جب درخت ہوں گے تو موسم اچھا ہو گا، جب موسم اچھا ہو گا تو بارش ہوگی اور جب بارشیں ہونگی تو فصل اور درخت لگے گے اور جب درخت  اگیں گے تو ماحول اچھا ہوگا۔ جب ماحول اچھا ہوگا تو صحتمند سوچیں برآمد ہوں گی اور جب بہترین سوچیں برآمد ہو نگی تو ملک ترقی کرے گا۔ جس سے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا اور جب ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پائے گا تو اپنے ملک کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کے کام آ سکتے ہیں۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ گرین سر سبز و شاداب پاکستان کیلئے تمام پاکستانیوں کو کام کرنا چاہیے ، خصوصا ً ماہرین کی آراء سے استفادہ  حاصل کرکے   اس کو قومی صنعت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ٹورازم اس کی ایک مثال ہے۔ درختوں کی کٹائی کی کچھ وجوہات یہ بھی ہوتی ہیں  کہ اس جدید زمانے میں بھی بعض علاقوں کو گیس کی فراہمی بحال نہیں ہوئی ہے اس لئے با امر مجبوری لوگ سستی سوختہ لکڑی اور درختوں کو جلاتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں کو گیس کی بحالی یقینی بنائی جائے۔ تاہم اس کے لیے بھی اقدامات کیے  جانے چاہییں  تاکہ کسی طرح بھی گھروں کی تعمیر اور اس جیسے امور میں لکڑی کے استعمال کو کم سے کم کیا جاسکے۔ پھل، پھول، پودے اور درختوں کے فارموں کی حوصلہ افزائی سے بھی اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ نیز الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر آگاہی مہم سے عوام میں جذبہ اور شوق کے  بیج بوئے جا سکتے ہیں۔عوام کی بلا واسطہ شرکت کے بغیر یہ مذکورہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ سادہ سی بات ہے عوام کی حوصلہ افزائی اور اس کی شرکت کو یقینی بنایا جانا اہم امور ہے۔ کسان اور دہقان کو حکومتی سبسڈی ملنا اور باغات لگانے والوں کی ستائش کرنا اور ان کو حکومتی انعام و اکرام سے نوازنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ عالمی برادری اور غیر حکومتی تنظیموں کی امداد کے بغیر یہ منصوبے قابل عمل نہیں ہو سکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں مدرسوں، مساجد، پارلیمنٹ، بازاروں، چوکوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایسی ضروری اور اہم مسائل پر عوام کی آگاہی کے لئے مناسب منصوبے اور قابل عمل پروگرامات لائے جانے چاہئیں ۔ لوگوں میں پھل، پھول، پودے، درختوں اور جنگلات کے متعلق احساس ابھارا جانا چاہئے۔ خاص کر تدریسی نصاب میں ماحول دوست جنگلات کے تحفظ اور اور درختوں کو لگانے جیسے اقدامات کیلئے مضامین کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ موجود ہے۔ حکومتی ریگولیٹری باڈی بھی اس کار خیر میں نمایاں کردار سرانجام دے سکتی ہے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply