ایمرجنسی کی صورتحال میں تعلیم۔۔عمران علی

پروردگارِ عالم کے” کن” سے پوری کائنات معرض وجود میں آئی، کائنات کا ذرہ ذرہ مالک کائنات کے حکم کا تابع فرمان ہے،ا ﷲ کریم کی پیدا کردہ ہر ایک شے بے مثال ہے، مگر جو مرتبہ اور شرف انسان کو حاصل ہے وہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے، اور انسان کو یہ رتبہ اس کو پروردگار کی طرف سے عطاء کردہ عقل و دانش، فہم و فراست اور ادراک کی بناء پر ہوا،یہ علم و دانش ہی ہے کہ جس کے بل بوتے پر انسان نے پوری کائنات کو تسخیر کرتے ہوئے، معدنیات تک رسائی حاصل کی، کہکشاؤں کو دریافت کیا، سمندروں کی تہہ میں چھپے خزانوں کو کھوج نکالا، مگر دوسری طرف انسان ہی نے اپنے وقتی اور ذاتی مفاد کے پیش نظر قدرت کے نظام کو نقصان بھی بہت پہنچایا، ایندھن کے لیے درختوں کی ظالمانہ حد تک کٹائی کی، جس سے ماحولیاتی آلودگی نے جنم لیا، زمین بنجر ہونا شروع ہوگئی، ہزاروں قدرتی آفات نے جنم لیا، انسان نے ماحول کو گندگی اور غلاظت ڈھیروں سے بھر دیا جس کہ نتیجے میں موزی بیماریاں وجود میں آئیں، انسان نے اپنے وسائل کو بڑھانے کی غرض سے کھیتوں کو بیچ کر رہائشی کالونیاں بنائیں اور کارخانے لگا لیے جس کی وجہ سے انسانی زندگی کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا۔
ایک بات تو طے شدہ ہے کہ آفات چاہے قدرتی ہوں یا غیر قدرتی ، حضرت انسان نے بڑھ چڑھ کر ان کے رونما ہونے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، تو ایسے میں آفات اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اب یہ نہایت ضروری ہے کہ اسے ان کے ساتھ جینا اور ان کا مقابلہ کرنا نہ صرف سیکھنا پڑے گا بلکہ اپنی قوت مدافعت کو بھی مضبوط کرنا ہوگا، پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جہاں قدرتی اور غیر قدرتی دونوں طرح کی آفات نے ہمیشہ سے متاثر کیا ہے، حال ہی کورونا وائرس نے پوری دنیا میں ایک بد ترین وباء کی صورت حال اختیار کر لی ہے، جس کے  نتیجے میں اب تک لگ بھگ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، اس وائرس کے حوالے سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی بازگشت کررہی ہیں لیکن پھر بھی اس بات کی اہمیت سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ یہ نہایت مہلک ہے۔
پاکستان میں اس کی شدت کے پیش نظر تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا ہے اور تدریسی عمل کو روک دیا گیا ہے جوکہ بجاء طور پر اچھی حکمت عملی ہے، لیکن اس وائرس کے متعلق شعور و آگاہی اور حقائق پر مبنی معلومات کا تبادلہ اس سے جڑی غیر ضروری سنسنی کو کم کرنے اور خوف کی فضاء کو کم کرنے میں نہایت مددگار ثابت ہوگا، بہت سی عام احتیاطی تدابیر اس وائرس سے محفوظ رکھنے میں نہایت کار گر ثابت ہو سکتی ہیں۔
مگر ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسی سال سردیوں کی شدت کی وجہ سے اضافی تعطیلات پہلے ہی دی جاچکی ہیں اور اب اس ایمرجنسی کی وجہ سے مزید چھٹیاں دی گئی ہیں، تو کیا تعلیمی نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جانا چاہیے، چائنہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے لیکن اس نے تعلیمی ہرج کے سدباب کے لیے آن لائن تدریسی طریقہ کو اپنایا ہواہے، پاکستان میں بھی کوئی نہ کوئی قابل عمل حکمت عملی ضرور اپنائی جانی چاہیے، لوگ اس ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے وسائل بہت محدود ہیں یہاں چائنہ کی طرز نظام نافذ ہونا مشکل ہے۔
لیکن پاکستان میں شہروں میں انٹرنیٹ کے صارفین کی کثیر تعداد موجود ہے، جس سے شہروں کی سطح پر ایمرجنسی کی صورت میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے سوشل میڈیا کو بطور میڈیم بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ، اور دیہی علاقوں میں ریڈیو کے ذریعے سے خصوصی تعلیمی پروگرام کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ ہم تعلیمی میدان ویسے بھی باقی دنیا سے کئی سو سال پیچھے ہیں۔
ہم مزید نقصان برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کے بد ترین قدرتی آفات کے گزرنے کے فوراً بعد ہی متاثرین کے کیمپوں میں تعلیم و تدریس کی جاتی رہی ہے، آفات نے تو رونماء ہونا ہی ہے تو کیا معمولات زندگی کو ترک کیا جا سکتا ہے، اب پاکستان میں ماہرین تعلیم کو مل بیٹھ کر کوئی ایسا نظام ضرور وضع کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر “Education in Emergencies” کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر ایسا تعلیمی نظام عمل میں لائیں کے تعلیمی عمل بلا تعطل کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں محفوظ رہتے ہوئے چلایا جا سکے، پروردگارِ عالم ملک پاکستان کو حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply