علامہ اقبال اور فلسفہ خودی

علامہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس کو دنیا شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے۔ دنیا اقبال کے تعارف کی محتاج نہیں ہے، اقبال نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک عظیم فکر دی، جس سے مسلمان بیدار ہو گئے، اقبال کے اندر مسلمانوں کے لئے ایک ایسا درد تھا جس نے اقبال کو بے قرار کیا، جس نے اقبال سے سکون چھین لیا، جس نے اقبال سے نالے اگلوائے، اقبال نے پورے مشرق میں خودی و خود اعتمادی، عزت نفس، جہاں بینی، اور جہاں بانی کا ولولہ پیدا کیا، اقبال نے نہ صرف مشرق کو اپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جھنجھوڑا بلکہ مغرب کے گمراہ کن تعقل اور فتنہ جو تجربہ و مشاہدہ کے سائنٹفک منہاج کو وحی الٰہی اور پیغمبرانہ اسوہ سے مستنیر کر کے انسانیت کے لئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاء کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔

اقبال نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کیا ایک ایسا شعور جو مغربی تہذیب اور صنعتی تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ اس سے ایک ایسے ادراک سے روشناس کرایا جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں پر محیط تھا۔ اقبال ماضی کی تابناک شعاعوں سے حال کی تاریکیوں کو دور کرنا چاہتے تھے اور ایک ایسے طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخلاقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہو گا۔

اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لئے تعلیم مثل نیشتر
(اقبال)

علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں، مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ ایک ایسے مفکر جنہوں نے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غور و فکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔ انھیں اقبال کی ندرت فکر کا شاہکار کہا جا سکتا ہے، علامہ اقبال نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے، علامہ اقبال کی خودی، خود پرستی نہیں ہے، خود سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا، یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا، یعنی انسان کو اﷲ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے، اقبال کی خودی خانقاہی نہیں ہے اقبال کی خودی خود شناسی ہے، معرفت نفس ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراخ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
(اقبال)

اقبال کے نزدیک خودی کے اثبات، پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا جا سکتا ہے، خودی اپنی پختگی ہی سے حیات جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل انفرادیت کو اس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے، خودی کا جوہر ہے یکتائی، وہ کسی دوسری خودی میں مدغم نہیں ہوسکتی، نہ اس کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہو سکتا ہے، نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتقل ہوسکتی ہے اگر خودی کی تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔

خودی کی پرورش و تربیت یہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز
(اقبال)

اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ’خودی‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے۔ اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے اور محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے، انسان کیا ہے؟ انسانی زندگی کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے۔

اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے، قیام یورپ کے زمانے میں انھوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ فارسی شاعری بھی ہے جس نے افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں کو خشک کر دیا، اس کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا، افراد میں خودی اور خود داری کی بُو نہ رہی اور ذلت و نکبت موجب فجر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔ اردو ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھا۔

’خودی‘ کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا، خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا، جذبہ خود داری کا، اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کی ضامن سمجھنے کا مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا، یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے’خودی‘زندگی کا آغاز وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و پستی خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔

خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ، خودی کا استحکام زندگی کا استحکام، ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں، اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔

خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کی سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
(اقبال)

کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لااِلٰہ اِﷲ کا اصل راز خودی ہے، توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظت کرتی ہے۔

خودی کا سرِّ نہاں لااِلٰہ اِﷲ
خودی ہے تیغ فساں لااِلٰہ اِﷲ
(اقبال)

کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے، قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آ جاتا ہے۔

خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو ہے دریائے بیکراں نایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر
(اقبال)

بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا۔ اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس سے دوری موت کا پیغام ہے۔

قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی
(اقبال)

خودی کے اوصاف میں اقبال کے بے شمار بیانات، ان کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں اور بے شمار ایسے اشعار ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہوں نے اتنا زور دیا ہے اور فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے، جذبات کے لمحاتی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود کو لازم و ملزوم بتا کر وجود کی تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے خودی کی نمود سے غافل نہیں رہنا چاہئے، خودی کی بھر پور نمود انسان کو امر بنا دیتی ہے۔

خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد خودی کی تربیت کی ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین ہیں، اطاعت، ضبط نفس اور نیابت اِلٰہی، اطاعت سے مراد فرائض کی ادائیگی اور شریعت الٰہیہ کی عملی تائید ہے۔ جو شخص ان سے بھاگتا ہے وہ گویا دینِ محمدی ص کے آئین کے خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے، ضبط نفس سے مراد، نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پانا ہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ،نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔

جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ اعلیِ منصب پر فائز ہو جاتا ہے جو تخلیق انسانی کا مقصدِ خاص ہے، نیابت اور جس حصول کے لئے انسان روز اول سے سرگرم عمل اور مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(اقبال)

علامہ اقبال کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے، چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ ملت کی خودی کو بھی مرتب و مستحکم بنایا جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم کر دے یا اس کا تابع بنا دے کہ ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہو جائے کہ ذاتی اغراض و مفادات پر ملت کے اغراض و مفادات کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے، ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہوتی، تقویت حاصل کر لیتی ہے، اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آ جاتی ہے۔

در جماعت خود شکن گردو خودی
نارِ گل ،برگ چمن گردو خودی
کثرت ہم مدعا وحدت شود
پختہ چوں وحدت شود ملت شود

انفرادی اور اجتمائی خودی کی تربیت و تنظیم اور استحکام و استقلال کے لئے عہد حاضر کی ساری ملتوں میں ملت اسلامیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین مروج ہیں ان سب میں آئین اسلامی یعنی قرآن مجید ہی ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اطاعت اور ضبط نفس کی منزلوں سے کامیاب گزر کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسلامیہ کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خودی سے بہت مختلف ہیں اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس کا مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب کا نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی، مسلمانوں نے اپنی خودی کو نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے، ہمارا قُدس مُبارک امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں، مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، مسلمان ممالک ویران کئے جا رہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اقتدار کی بھوک، کسی کو گھر کی بھوک، جب تک مسلمانوں کا صفایا ہو جائے گا تب تک ہم سوئے رہیں گے، کب تک ہم مغرب کی غلامی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہیں۔

اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اسلام ص کی شان میں توہین کرتے، اے کاش اقبال کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسلامیہ میں خودی کا مقام حاصل ہو جائے اور ہم مسلمان آباد، خوشحال اور امن امان میں رہتے اور روحِ اقبال خوش ہو جاتی، اقبال کسی خاص علاقے یا ملت کا شاعر نہیں ہے وہ پورے عالم انسانیت کا شاعر ہے اور اس کا پیغام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔
ہر درد مند دل کو رونا میرا رولا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
(اقبال)

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ ہم لوگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply