سولہ دسمبر۔۔حسان عالمگیر عباسی

نسل نو میں سے کچھ پھولوں سے پوچھیں سولہ دسمبر کو کیا ہوا تھا۔ جواب میں یہی آئے گا کہ اے پی ایس کے بچوں کو دہشت گردی کے بھینٹ چڑھایا گیا تھا۔ ملک کا ٹوٹنا تو دور یہی نہیں جانتے کہ کبھی ایکا بھی ہوا کرتا تھا۔ بزرگوں اور ان کے بچوں کو شاید معلوم ہو لیکن تیسری نسل عمومی طور پہ سولہ دسمبر کو سانحہ اے پی ایس کے طور پہ جاننے لگی ہے۔ بلاشبہ وہ بچے ہمارے بچے تھے لیکن مدارس کے بچوں پہ اس سے کہیں زیادہ ظلم ڈھائے گئے۔ کوئی ایک بھی دن ان کے نام سے منسوب ہے؟

دراصل اس دن کی یاد سے ایک قابض طبقے کی نااہلی بازار کی زینت بننے لگتی ہے۔ ملوکیت کے بندے ہیں تمام اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی نااہلی پہ سوال اٹھے۔ وہ بس ہر دو صورتوں پہ ٹٹ پونجیا بننے کا کہتے ہیں۔

اصل ٹارگٹ ہم، ہمارے آبا و اجداد نہیں ہیں۔ ہمارا نظریہ ابھی تک کسی حد تک مستحکم ہے۔ اصل ٹارگٹ نئی نسل ہے۔ آپ کے گھر میں وہ بچہ جو ابھی ہنسنے و رونے کی وجہ تک نہیں جانتا اصل اہداف میں سے ایک ہے۔ ہمیں انقلابی بننے کی بجائے اپنے بچوں کو انقلاب کے لیے تیار کرنے پہ توانائی صرف کرنی چاہیے۔ انقلاب نسلوں کا کام ہے۔ ہماری نسلیں ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کارہائے نمایاں انجام دے سکیں۔

فوج ہماری ہے لیکن اس لیے ہم اسے اپناتے یا own کرتے ہیں کیونکہ ان کا کام ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اس کام کے لیے انھیں کوئی مجبور نہیں کرتا بلکہ وہ خود اپنی مرضی سے اس مقدس کام کا حلف لیتے ہیں۔ اگر یہ کام نہیں کر سکتے تو جس طرح سیاست دان ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اپنی بھی یہی تقدیر دل سے قبول کرنے کا جگرا تو پیدا کر لیں۔ اپنا کام نہ ہو پائے تو بجائے احتساب سے اپنے آپ کو گزاریں, الٹا سیاست دانوں سے الجھتے ہیں۔ جن معاملات کو لے کے وہ انھیں گھٹیا ثابت کرتے ہیں وہ کرپشن یا غداری ہے۔ کرپشن اور غداری کی ان کی تعریف کے حساب سے عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر جرنیلوں کی بدعنوانیاں سامنے آگئیں تو سیاست دان فرشتے نظر آئیں گے۔

فوج ہماری ہے اور ہم اس کے ہیں۔ جب بھی ضرورت محسوس ہوئی ہمارے نوجوانوں نے ضرورت سے زیادہ ان کو خون دیا۔ آج بھی پاکستان سے محبت کے جرم میں نظریاتی و فکری بنگالیوں کو الٹا لٹکایا جا رہا ہے۔ وہ تو ‘جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے/ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں’ کہہ کر امر ہو جائیں گے لیکن قابض طبقے کو بھی سوچنا و سمجھنا چاہیے کہ ہم بلڈی سویلینز نہیں ہیں۔ ہم گردن کٹوانے اور عزت نفس پہ آنچ نہ آنے کے قائل ہیں۔ ہمیں ہماری ماؤں نے آپ کی چاکری کے لیے نہیں بلکہ آزاد پیدا کیا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ بارڈرز پہ قربانیاں دے رہے ہیں, ان کے لیے یہی پیغام ہے کہ آپ بارڈرز سے واپس آ جائیں۔ جب کشمیر بھی دے دیا ہے اور بنگال بھی پیالے میں پیش کر دیا تو وہ کون سی ایسی گیدڑ سنگھی آپ رکھتے ہیں جس کی حفاظت اتنی مقدس ہے کہ زندہ انسانوں کو لاشیں بن جانے پہ اکساتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ملک اسلام کے نام پہ قربان ہو کر بنایا گیا تھا۔ اگر ہم نے صوبائیت، قومیت پرستی، علاقائی تعصب اور لسانی نفرتوں کو جاری و ساری رکھا تو وہ دن بھی دور نہیں ہے جب پنجاب گریٹر پنجاب بن جائے گا۔ لر و بر یو افغان گونجنے لگے گا اور باقی صوبے بھی اپنا بند و بست کر لیں گے۔ کشمیر تو اب ہمارا ویسے بھی نہیں رہا اور اگر جی بی صوبہ بن گیا تو رہی سہی حیثیت بھی دشمن کے لیے کچل دینے کے لیے رہ جائے گی۔ فوج ہماری ہے لیکن فوج کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ ہمیں چاکری پہ مت اکسایا جائے۔

Facebook Comments