سیندک کا آنکھوں دیکھا حال — قسط1 /رشید بلوچ

سیندک پروجیکٹ کے وزٹ کی خواہش کافی عرصے سے تھی لیکن جانے کا کوئی معقول ذریعہ نہیں سوجھ رہا تھا۔ اس خواہش کا اظہار کافی دوستوں کے ساتھ بھی کیا تھا۔ ایک دن اچانک ہمارے سینیئر قابلِ احترام دوست سلیم شاہد صاحب نے فون کر کے سیندک جانے کی آفر کی تو ہم نے کسی تذبذب کے بغیر حامی بھر لی۔

دوستوں کے حکم پر 23 ستمبر کی صبح سویرے ہم 12 کے قریب دوست تین گاڑیوں پر مشتمل قافلے کی صورت سیندک کے لیے روانہ ہوگئے۔ آدھا سفر طے کرنے بعد دالبندین پہنچے تو ہمیں ہنستا مسکراتا اپنا علی رضا رند سرکٹ ہاؤس کے سامنے استقبال میں کھڑا نظر آیا۔ ہمیں راستے میں ہی شہزادہ زوالفقار کہہ چکے تھے کہ دوپہرکا کھانا علی رضا رند کی طرف سے ہوگا۔ ہمارا مہزبان ہمیں انتہائی پرتپاک اندازمیں ملا۔ رسمی سلام دعا کے بعد کھانے کی ٹیبل کی طرف چل دیے جو پہلے سے ہی لگایا جا چکا تھا۔ ہم علی رضا کی دعوت پر مالِ غنیمت کی طرح ٹوٹ پڑے تا آنکہ پیٹ کا ڈھول بجنے لگا۔

کھانا ڈکارنے کے بعد سستائے بغیر منزلِ مقصود کی جانب نکل پڑے۔ ہماریگاڑی میں بنارس خان فرنٹ سیٹ پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔ عمومآ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والے کو دورانِ سفر سونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سونے کی ذرا سی لت اگر ڈرائیور کو لگ گئی تو اصل منزلِ مقصود جانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ چونکہ خان کو گاڑی میں بیٹھ کر ہی خراٹے لینے کی پرانی بیماری ہے، ہم نے سوچا سیندک کے بجائےعرش تک پہنچنے سے بہتر ہے کہ خان کو خراٹے لینے ہی نہیں دینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ خان خراٹے لینے کی تیاری کرتا ہم کندھے پر ہاتھ مار کر اس کی توجہ سفر کی سنگینی کی طرف مبذول کروا دیتے۔

دالنبدین سے نکلنے کے بعد بغیر کسی وقفے کے ہم 600 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے رات کے 8 بجے اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے۔ سیندک کا پروجیکٹ ایریا شروع ہونے سے چند کلومیٹر پہلے ہمیں سیکورٹی چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ ہمارے کافی اصرار کے باجود آگے جانے کی اجازت نہیں مل سکی۔ اس دوران موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے ہم کسی سے رابطہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ چوکی پر تعنیات کھڑے ایک ایف سی اہلکار نے ہماری بے چینی بھانپتے ہوئے پہاڑی کے ٹیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، سر! وہاں تھوڑے بہت سگنل مل جاتے ہیں۔

شہزادہ ذوالفقار اہلکار کی بات سنتے ہی تیز تیز قدموں سے ٹیلے کی جانب روانہ ہوئے جہاں سگنل کی نشاندہی کے لیے دو بڑے بڑے پتھر رکھے گئے تھے۔ باقی دوست ٹولیوں کی صورت بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ تمام ساتھی خوش گپیوں میں یوں مصروف ہوگئے۔ گویا سفر کی ساری ذمہ داری شہزادہ کے کندھوں پر ہی رکھی گئی تھی، باقی سب ساتھی اس جنجال سے مبرا تھے۔ شہزادہ کی کوشش کسی حد تک بارآور ہوگئی لیکن پھر بھی ہمیں رات کو آگے جانے کی اجازت نہیں ملی۔ تاہم چوکی پر ہماری تواضع چائے اور ڈرائی فروٹ سے کی گئی جو ہمارے لیے غیر متوقع تھی۔ پوری طرح ناکامی کے بعد بتایا گیا کہ کل صبح ہی ہم چیک پوسٹ سے گزر پائیں گے، رات کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر کسی صورت جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ہماری آمد کا پتہ سیندک انتظامیہ کو بھی لگ چکا تھا۔ اس دوران وہ بھی ہمارے پاس پہنچ گئے تھے۔ جن میں چائینیز اور مقامی لوگ شامل تھے۔ آخر کار طے یہ پایا کہ رات تفتان میں گزاریں گے، صبح ہوتے ہی دوبارہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوں گے۔ لیکن کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ ہمیں واپس کوئٹہ جانا چاہیے۔ واپس جانے کی اس بے تکی رائے پہ اکثر دوستوں نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔ ہر سو ناکامی کے بعد حاجی حبیب الرحمان ہمیں اپنی رہائش گاہ تفتان لے کر گئے۔ چونکہ ہم نے تھوڑی دیر پہلے ڈرائی فروٹ پر سے طبیعت صاف کر رکھی تھی تو میرا کم سے کم کھانا کھانے کا زیادہ اشتیاق معدوم ہو گیا تھا۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا حاجی حبیب کے 20 بائے 20 کے بیٹھک میں کسی میٹرس و بسترے کے بغیر صبح تک سفر کی تھکان دور کر لینا چاہیے۔

یہ بلوچی روایات بھی عجیب ہوتی ہیں؛ گھر آیا مہمان بھلے پھٹ رہا ہو لیکن اسے کھانا کھلائے بغیر سونے نہیں دینا۔ چند ہی لمحوں میں کھانے کا دسترخوان بچھا دیا گیا۔ ایک پرتکلف کھانا ہمارے سامنے سجا دیا گیا تھا۔ تفتان جیسے شہر میں جہاں بمشکل رات آٹھ بجے تک دکانیں کھلی ہوتی ہیں، وہاں رات کے اس پہر پرتکلف کھانا بنوانا جوئے شیر لانے جیسا ہوگا۔

ابھی ہم کھانا کھا ہی رہے تھے بلکہ چند لقمے ہی ٹھونسے تھے کہ ایک باریش سیکورٹی آفیسر بیٹھک میں داخل ہوا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جیسے ہم سگنل رینج مین پہنچ گئے تھے، شہزادہ سمیت کافی سارے ساتھیوں نے کوئٹہ اور متعلقہ انتظامیہ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ جب ہی سیکورٹی آفیسر ہمارے ہاں آن پہنچے تھے۔ اندر ہی اندر ہم سمجھ گئے کہ پروجیٹ جانے کا پروانہ مل چکا ہے۔ ہمارے کافی اصرار کے باوجود سیکورٹی آفیسر نے کھانے پر ہمیں جوائن نہیں کیا۔ آتشِ شکم بشانت کرنےاور تہل چاہ (بغیر چینی کی چائے) کا لطف اٹھانے کے بعد سیکورٹی کے جھرمٹ میں ہم سیندک پروجیکٹ کی جانب روانہ ہوگئے۔

اس سے قبل ہم نے سیکورٹی افیسر سے التماس کی تھی کہ آپ چیک پوسٹ پر اطلاع کرا دیں ہم خود ہی چلے جائیں گے، لیکن ہماری التماس نہیں سنی گئی۔ کوئی بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم وہاں پہنچ گئے تھے جہاں سے ہمیں واپس کیا گیا تھا۔ اب کی بار ہمیں کسی پوچھ گچھ کے بجائے سلامی دے کر بیریئر گرا دیا گیا۔ اگلے پندرہ منٹ میں ہم پروجیکٹ کے رہائشی علاقے پہنچ چکے تھے۔ پروجیکٹ ایریا پر لگی اسٹریٹ لائٹس اپنے آب و تاب سے جگمگا رہی تھیں۔ ایسے لگا جیسے ہم کسی چھوٹے سے قصبے میں داخل ہوگئے ہیں۔

تھوڑی دور جا کر گاڑیوں کا قافلہ ایک رہائشی کوارٹر کے قریب رک گیا۔ ہمیں اتر جانے کا اشارہ مل چکا تھا۔ پروجیکٹ کے مقامی مہزبانوں نے ہمارا استقبال کیا اور دو دو ساتھیوں پر مشتمل ایک ایک کمرہ دے دیا گیا۔

اس دوران ظفر بلوچ نے مجھے کان میں بتایا کہ، “رشید! من او تو یکجا بین۔”
میں ظفر بلوچ کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

ہم اپنے کمرے پہنچ چکے تھے۔ چینج کرنے کے بعد بلا کسی چوں و چرا بستر پر پر لیٹ گئے۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے میں نے آنکھ کھولی تو ظفر میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے کو کہہ رہا تھا، “اڑے وپسگءَ بِل…”

میں نے کروٹ بدلنے کی کوشش کی۔ ظفر کے اگلے جملے پر میں نے سراہانے رکھے موبائل کی اسکرین پر آنکھ مَل کر دیکھا تو صبح کے آٹھ بج چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں کمبل پھینک کر واش روم کی جانب بڑھا۔ ظفر پہلے سے ہی تیار ہو چکا تھا۔ جب میں واش روم سے نکلا تو سب ناشتہ کر کے تیاری میں لگے تھے۔ میں ناشتہ کیے بغیر کارگو بس میں ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply