واران بس سروس، جی ٹی ایس اڈہ ، حقائق نامہ۔۔مسعود چوہدری

عظیم باپ کی اولاد اکثر عظیم نہیں ہوتی۔ تاریخ اکثر ہمیں اس حقیقت سے روشناس کرواتی ہے کہ اولاد کی تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہو یا اولاد کو استعمال کرنے والے پیٹھ پیچھے سے وار کرنے کے ماہر ہوں، وجہ خواہ کچھ بھی ہو، ایک کامیاب زندگی اور مثالی کردار ثابت کرکے دنیا سے جانے والے کو قبر میں جانے کے باوجود بھی تاریخ میں اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راقم آج چند دوستوں کو ناراض کرنے کا قصد کر کے یہ تحریر آپ کے حوالے  کر رہا ہے۔

اہل قلم کی ذمہ داری درست اور مکمل حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تاریخ کے حوالہ جات کو درست رکھنا بھی ہے، تاکہ آخرت کی منازل طے کرنے والا پُرسکون رہ سکے۔ یہ تمہید اس خبر کی وجہ سے ہے کہ پاکستان کا ایک زبردست اور مجاہد فطرت سپاہی جو دنیا میں ایک شاندار تاریخ رقم کر گیا ہے ایک مرتبہ پھر خبروں کی  زینت بنا ہوا ہے۔ میری مراد حمید گل مرحوم سے ہے۔ اور ان کی ذات کے متعلق من گھڑت اور عجیب عجیب طرح کی لغو باتیں پھیلا کر ایک منظم انداز میں ملکی اداروں کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں یہ بات ہمیشہ سے جانتا ہوں کہ جب ایک خاص طبقہ اداروں پر طعن و تشنیع کے نشتر چلانا شروع کر دے تو آپ کو چوکنا ہو جانا چاہیے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

چند دن پہلے واران بس سروس سٹیشن جسے عرف عام میں جی ٹی ایس اڈہ راولپنڈی بھی کہا جاتا ہے ،اس پر پنجاب پولیس کے شیر جوانوں نے دھاوا بول دیا اور اس کا قبضہ حاصل کر لیا۔ اس واقعہ کے تناظر میں حمید گل مرحوم کی ذات پر بھات بھات کی من گھڑت باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ حقائق سے پردہ اٹھایا جائے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی زندگی میں جنرل حمید گل صاحب مرحوم نے افتخار صاحب کے پروگرام جوابدہ میں یہ تصحیح  کر دی تھی کہ ان کا اس اڈ ے  اور اس پر قبضہ کرنے والے گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آپ چیک کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہانی اتنے پرہی ختم نہیں ہو جاتی لہذا آگے بڑھتے ہیں ۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے سابق اے ڈی سی یوسف میکن نے انہیں مشورہ دیا کہ حمید گل مرحوم کی صاحبزادی اور انکی بیگم مسز عظمی یوسف المعروف عظمی گل صاحبہ کے نام پر سترہ کنال اراضی کی لیز کرواتے ہیں اور اس پر ایک بس کمپنی بنا لیتے ہیں۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے۔ ایک تو یہ کہ سٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر جائے گا کہ نواز شریف بہت تابعدار شخصیت ہیں، چونکہ یہ علاقہ صدر کینٹ کی حدود میں ہے تو ہمیشہ ایک رابطہ سینٹر موجود رہے گا اور دوسرا یہ کہ سرکاری اراضی پر قرض کی رقم حاصل کر کے ایک بس سروس کھڑی کر لی جائے گی جس کی مدد سے نا صرف منافع حاصل ہو گا بلکہ عوام میں یہ تاثر بھی دیا جا سکے گا کہ نواز شریف کی پالیسیاں کتنی عوام دوست ہیں۔ گو کہ  ذرائع تو یہ بھی دعویٰ  کرتے ہیں کہ اس پر نواز شریف بہت خوش ہوئے اور اپنی پارٹنرشپ کا حصہ بھی طے کر لیا۔ اس بات کو بعد کے تعلقات سے اور مس عظمی یوسف صاحبہ کے مریم نواز کی سیکریٹری بننے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے تقویت ملتی ہے لیکن چونکہ اس سے متعلق دستاویزی ثبوت موجود نہیں ،اس وجہ سے ذرائع کا دعویٰ  اپنی جگہ رکھتے ہوئے جی ٹی ایس اڈہ اور واران کی کہانی میں آگے بڑھتے ہیں۔

المختصر میاں نواز شریف نے 1997میں عسکری بنک سے حاصل کردہ قرض کی مدد سے کھڑی کی گئی واران ٹرانسپورٹ کمپنی کا افتتاح کر دیا۔ واران بس سروس کچھ عرصہ چلتی رہی لیکن تنویر قیصر شاہد نے ڈیلی پاکستان میں انکشاف کیا کہ چار سال میں ایکسیڈنٹس کے نتیجہ میں 17قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا تھا، جبکہ 13 فروری 2005 کو ایک طالب علم کو بس نے کچل دیا اور ایک کو زخمی کر دیا جس پر مشتعل ہجوم نے دس کے لگ بھگ بسیں نذرِ  آتش کر دیں ،جبکہ 16  بسوں کے شیشے توڑ دیے۔ جبکہ بعد میں دیگر ٹرانسپورٹرز واران کے خلاف عدالت چلے گئے ،جس کی وجہ سے اس نے کام کرنا بند کر دیا لیکن اربوں روپے مالیت کی جگہ کا قبضہ عظمی یوسف گل صاحبہ کے پاس ہی رہا۔ اس سارے معاملہ کا الزام انہوں نے شیخ رشید احمد اور اس وقت کے ایس پی وقار چوہان کے سر دھر دیا۔ انہوں نے اسکے بعد سے لیز کی مالیت یعنی 56000 روپے فی کنال سالانہ جو کہ ماہانہ 4667   روپے تقریباً ماہانہ فی کنال بنتا ہے ادا کرنا بھی بند کر دیا۔ پھر اسی تناظر میں ان کی تلخ کلامی، اڈہ کے حصول پر، اس وقت کے ڈی سی سے بھی ہوئی ۔ جبکہ فروری 2005 میں واران نے کام بند کر دیا لیکن پھر تین جولائی 2008 میں شہباز شریف نے طاقت میں آتے ہی حیران کُن طور پر اپنا ہاتھ اس بس سروس کے اوپر رکھ دیا اور ذرائع کے مطابق انہیں سرکاری خزانہ سے مالی مدد بھی فراہم کی۔ اس پر انگریزی ڈیلی نے جو ٹائٹل دیا وہ اپنے آپ میں ایک منہ بولتا جملہ ہے۔۔
Varan returns with a vengeance
اس تقریب کوخادم نے کور کیا اور یاد ہے کہ کیسے زبردست انداز میں شیخ رشید احمد اور سابق بیوروکریسی کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور ق لیگ کو اسکے بند ہونے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

24 اگست 2018 کو یاسر محمود چوہدری ڈیوٹی سول جج فرسٹ کلاس راولپنڈی نے عظمی صاحبہ کو سٹے دیا لیکن جو بات انہیں معلوم نہ تھی وہ چند دن پہلے حاصل کردہ خصوصی اختیارات کا آرڈیننس ہے جس کے تحت غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے لینے کا اختیار لے لیا گیا ہے۔ لیکن جس انداز میں اس معاملہ کو ہینڈل کیا گیا ہے، وہ بہرحال ایک سوالیہ نشان ہے۔ سات مارچ 2020 کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود نے صدر اڈہ خالی کروا کر پارکنگ پلازہ بنانے کی ہدایت کردی تھی۔ ترقیاتی سکیموں کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کمشنر راولپنڈی نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کو ہدایت کی تھی کہ جی ٹی ایس اڈہ صدر میں کھڑی ناکارہ بسوں کو فوراً وہاں سے ہٹا کر اس جگہ کو پارکنگ پلازہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ شاید وہ یہ بات اس وقت نہیں جانتے تھے کہ اس پراپرٹی پر حکم امتناعی حاصل کردہ ہے۔ حکومت تذبزب کا شکار رہی لیکن آج سرکاری ترجمان نے بیان جاری کیا ہے کہ جی ٹی ایس اڈہ کی جگہ پرکورونا فیلڈ ہسپتال بنایا جائےگا۔ جبکہ جب اسی معاملہ پر دوست اور بھائی شوکت بسرا صاحب پی ٹی آئی سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ سرکاری زمین کی لیز ختم ہو چکی ہے اور سرکار کو کوئی ادائیگی نہیں کی جا رہی، جبکہ دوسری طرف اداروں کو بدنام کرنے کی مذموم سازش بھی کی جا رہی ہے ،جس کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے مجھ پر سوال داغ دیا کہ کیا قبضہ مافیا سے سرکاری زمین واگزار کروانا غلط ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تو تھا وہ تاریخی پس منظر جس سے گزر کر واران آج اس خبر تک پہنچی ہے۔ ہفتہ سے آج تک کی تفصیلات آپ کے سامنے ہیں۔ صرف یہ عرض کر دوں کہ محترمہ اور انکے بھائی عبد اللہ حمید گل صاحب کی پاکستان کے بعد پہلی پہچان وہ کمال مرد مجاہد ہے جس کی تربت پر آج بھی دیوار برلن کا پتھر رکھا ہوا ہے جو اس کے تاریخی کردار کی عکاس ہے۔آپ دونوں سے متعلق کوئی بھی خبر ہو، ہر شخص ایک خاندان کے طور پر ایک عظیم باپ کی اولاد کے طور پر لیتا ہے۔ ماضی کچھ بہت اچھا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے دونوں طرف سے زیادتیاں ہوئی ہوں۔ بیمار ماں کو مقدمات میں گھسیٹنا غلط تھا۔ اللہ رب العزت مرحومہ کے درجات بلند فرمائے لیکن آپ سب سے پہلے تو صرف یہ عرض ہے کہ جو کچھ ان دونوں کے درمیان چل رہا ہے اسے مرد مجاہد حمید گل مرحوم و مغفور اور اداروں کے ساتھ نتھی کرنا بالکل درست نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ جو کچھ یہ ایک دوسرے کے خلاف کہیں گے وہ تاریخ میں انکے والد محترم اور والدہ محترمہ کے ناموں کے ساتھ لکھا جائے گا۔ انہیں عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔ اور میرا تجزیہ یہ ہے کہ محترمہ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ماضی میں ان پر اور انکے ایڈوائزرز پر انوسٹمنٹ کی گئی ہے جسے اب اینٹی سٹیبلشمنٹ بیانیہ پروموٹ کرنے کی غرض سے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس خاندان کو اپنے معاملات پر شدت سے نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ سمجھانا میرا فرض ہے۔ آگے فیصلہ تو آپ کا ہے۔ میرے ذمہ تو حقائق آپ تک پہنچا دینے تھے اگر کچھ غلطی کوتاہی ہو گئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply