ذرا جھانک کر واپس چلے آئے
قدم بھی غار کے اندر نہیں رکھا
گھڑی بھر تو غور کرتے
شتابی کیا تھی،ایسی منہ کی کھانے کی
یہی نادانیاں آخر ہزیمت سے ملاتی ہیں
اُدھر لات و منات و عزیٰ پل پل تلملاتی ہیں
سنو گے بھی کہ اپنی ہانکتے جاؤ گے غصے میں
دہانے پر کسی مکڑی نے جالا تان رکھا ہو
جہاں پر اک پرندہ گھونسلے میں اپنے انڈے دے چکا ہو
اور لمبی گھاس نے رستہ ہوا کا روک رکھا ہو
تو کیا کہتے ہو
ایسے غار کے اندر
کسی آدم کے جانے کا کوئی امکان رہتا ہے؟
نہ تارِ عنکبوت انڈے کبوتر کے
نہ لمبی گھاس کوئی معجزہ تھے
معجزہ دیکھا تو یارِ غار نے اُس چہرہ ء انوار پر دیکھا
جہاں سایہ تھا اطمینان کا روشن
کئی برسوں کی محنت ثانیہ میں مٹنے والی ہو
تو اطمینان چہرے کا بتاتا ہے
ہمارا فرض کوشش ہے
نتیجہ تو خدائے پاک و برتر کی مشیت ہے
وہ چاہے تو کسی مکڑی کے جالے میں
پھنسادے ساری دنیا کو!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں