تجھ جیسی عورت۔۔ہما

تجھ جیسی عورت پر کوئی مرد تھوکتا بھی نہیں ہے۔۔
یہ الفاظ ہیں معروف رائٹر خلیل الرحمان قمر کے جن کے لفظ دو ٹکے کی عورت(میرے پاس تم ہو)اور سیکنڈ ریٹ عورت(کاف کنگنا کی ہیروئن )ایشال فیاض کیلئے پہلے ہی بہت شہرت پاچکے ہیں۔
جب ڈائیلاگ دو ٹکے کی عورت شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا اس وقت میرا خیال تھا کہ مصنف حق پر ہے ایسی عورت جو باوفا اور باکردار آدمی کو چھوڑ کر اپنا گھر بار بچہ سب چھوڑ کر صرف آسائشوں کے پیچھے بھاگے اس کی قیمت دو ٹکے کی ہی رہ جاتی ہے، حالانکہ یہ فلسفہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن مذہبی اور معاشرتی حقوق اکثر انسانی حقوق پر غالب آجاتے ہیں۔

خیر دو ٹکے کی عورت کی کہانی اختتام پذیر ہوئی اور کہانی شروع ہوئی تجھ جیسی عورت کی ۔
میں اپنی اس تحریر میں لفظ “تجھ جیسی” کو سمجھنا چاہتی ہوں۔۔خلیل الرحمان قمر کے ان جملوں کی ادائیگی کے بعد پھر سے ایک دو طرفہ محاذ شروع ہوا،کچھ مردوں نے سختی سے ان لفظوں کی مذمت کی اور کچھ مرد اکڑ گئے اور کہا بہت اچھا کیا اس جیسی عورت کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔
یہ مرد حضرات تجھ جیسی اور اس جیسی عورت کیلئے کون سا پیمانہ استعمال کرتے ہیں ؟
اگر کوئی عورت موٹی ہے اور ساتھ ہی کالی بھی تو کیا اس کے لئے تجھ جیسی عورت ٹھیک رہے گا؟
اگر کوئی عورت ماڈرن ہے اور وہ باپردہ نہیں ہے تو اس کے لئے تجھ جیسی استعمال ہوگا؟
اگر کوئی عورت آپ سے اونچا بولتی ہے اور بحث و مباحثہ کرکے اپنا حق مانگتی ہے اسکے لئے تجھ جیسی استعمال ہوگا؟

تجھ جیسی کا لفظ جس عورت کیلئے استعمال کیا گیا میں اس عورت پر کوئی فتویٰ  صادر کرنے کی حیثیت نہیں رکھتی کہ وہ عورت اپنی وضع قطع سے صرف ِنظر اللہ کے ہاں کیسی دِکھتی ہے۔لیکن ہاں اس تجھ جیسی کی وضاحت ضرور مطلوب ہے وہ عورت جو آپ سے ،معاشرے سے ،حق لینے کی بات کرے وہ تجھ جیسی شمار کی جاتی ہے۔
مرد اکڑ کر کہتا ہے قرآن نے عورت کو اس کے حقوق چودہ سو سال پہلے دے دیئے تھے، اور قرآن کے مطابق رجال (مرد) قوام (ایک درجہ برتر ) ہیں۔

یہ ان نام نہاد مردوں کی عقل بس انہی آیات پر کام کرتی ہے؟؟؟
مجادلہ کیوں نہیں دیکھتے؟
قرآن کریم کی ایک سورہ کا نام مجادلہ (جھگڑا) ہے، جس میں ایک عورت اپنے حق کیلئے دنیا کے کسی عام مرد نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑا کررہی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل خاموشی پر اس عورت کے جھگڑنے کی آواز عرش باری تعالیٰ تک جاپہنچتی ہے اور ارشاد ہوتا ہے
“یقیناً الله نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑا کررہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔بے شک اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے ”

میں سمجھنے سے قاصر ہوں جس مذہب کے داعی عورت کو خود سے ایک درجہ کم ٹھہرائے جانے پر اکڑ سے پھولے نہیں سماتے انہیں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ یہ جھگڑا جو ایک عورت کی طرف سے کیا گیا انکے شوہر بھی تو اس معاملے میں نبی کریم سے جھگڑا کرسکتے تھے اور اللہ آیات اتار سکتا تھا کہ اللہ نے اس آدمی کی بات سن لی۔

آخر کیوں اس اظہار کے معاملے میں عورت کے اللہ کے نبی سے جھگڑنے کو اتنی اہمیت دی گئی کہ اس کے جھگڑے کو قرآن کا حصہ بنادیا، اس قرآن کا حصہ ،جسے دنیا کے تمام مسلمان مرد رات دن قرات میں پڑھتے ہیں۔

عورت کا اپنے حق کیلئے سوال کرنا میرے نبی اور میرے رب کے یہاں معیوب نہیں سمجھا گیا تو نام نہاد اسمبلی ممبران اور مصنف کون ہو تے ہیں جو انہیں اس حق سے باز رکھ سکیں ؟
اور اس جیسی اور تجھ جیسی عورت جیسی معیار سے گری ہوئی باتیں کرسکیں۔

میرا مقصد ہر گز بھی گزشتہ برس عورت مارچ میں لگنے والے نعروں کی حمایت نہیں کیونکہ جب ان نعروں کی حقیقت جاننا چاہی تو پتہ چلا کہ عورت مارچ میں متنازعہ نعرے لگانے والی تمام خواتین کا پس منظر امیر گھرانوں سے ہے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ان تمام خواتین نے عورت مارچ والے دن ہی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق وہ نعرے پلے کارڈز پر لکھے،مثلاً  جس لڑکی نے لکھا کہ اپنا کھانا خود گرم کرو اس کے مطابق پیچھے کوئی بڑی لاجک نہیں تھی بس ایک دن اپنی دوست کے بھائی کو اسے کھانا گرم کرنے کا کہتے دیکھا اور پوچھا کہ وہ خود گرم کیوں نہیں کرتا تو دوست نے کہا وہ کیسے گرم کرے گا وہ تو لڑکا ہے بس اسی چیز کو اس نے gender discrimination سمجھا اور نعرہ ایجاد کردیا۔
جس خاتون نے میں طلاق یافتہ ہوں اور خوش ہوں کا بینر بنایا ان کے مطابق بھی یہی تھا کہ بس عورتوں کا جوش و جذبہ دیکھتے ہوئے سوچا کہ میں بھی خود کو کسی طرح ایکسپریس کرسکوں تو یہ پلے کارڈ بنالیا۔

اسی طرح دوسری خواتین کی بھی لاجکس تھیں، ان تمام امراء خواتین سے گزارش ہے کہ خدارا خواتین کے حقوق کی آڑ میں اپنی فرسٹریشن مت مٹائیں،آپ کے اس عمل سے وہ عورت جو پہلے سے مجبور و مظلوم ہے اس کی مشکلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوپارہی،ایک طلاق یافتہ عورت جس کی طلاق کا سبب ہر گز اس کی خوشی نہیں بلکہ کبھی ساس بہو کے جھگڑے، کبھی شوہر کی ناپسندیدگی اور کبھی اولاد کا نہ ہونا ہوتا ہے، وہ بھی جب اس تجھ جیسی طلاق یافتہ عورت، تجھ جیسی طلاق یافتہ عورت کی مردانہ گردان سنتی ہے تو اس کی اذیت مزید بڑھ جاتی ہے اور اس پر فرض ہوجاتا ہے کہ اس تجھ جیسی کی مہر سے بچنے کیلئے وہ خود پر ہر خوشی، ہر مسکراہٹ حرام کرلے۔

اس لئے تمام حقوق نسواں کی علمبردار عورتوں سے گزارش ہے کہ وہ عورتوں پر رحم کریں اور اگر عورت کے حقوق اسے دلوانے ہیں تو حقیقی موضوعات پر کام کریں،عورت پر تشدد کے کیسز، عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے کیسز، عورت کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے پر   کیسز، عورت کو عوامی مقامات پر ہراساں کرنے کے کیسز میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، لیکن ہماری توجہ صرف اور صرف اپنے بے بنیاد نعروں کی تاویلات بیان کرنا ہے۔
یعنی
مجبور و مظلوم عورت کی حالت نہ بدلی تھی نہ بدلی ہے
حقوق نسواں کا جھنڈا اٹھائے بڑی میڈموں کا سفر ہورہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بڑی میڈم اور بڑے رائٹر دونوں ہی سے میری گزارش ہے کہ یہ موضوع آپ دونوں کی بساط سے باہر ہے۔اس لئے عوام الناس کو مزید منتشر اور جذباتی بلیک میل کرنے سے باز آجائیں اور یہ حقوق کا معاملہ ان پر چھوڑ دیں جو مرد و عورت مل جل کر ایک بہتر معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں ۔۔۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply