مقاصد پورے ہوگئے اب بس بھی کریں۔۔اے وسیم خٹک

عورتوں کے حقوق اوران کے احترام کے عہد کو دہرانے کے لیے ہر سال 8 مارچ کو یومِ خواتین کے طورپر منایا جاتا ہے ، اس کا سلسلہ کم و بیش سو سال سے جاری ہے۔پہلے یہ دن صرف روس اور چین وغیرہ میں منایا جاتا تھا مگر 1975 میں اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ اس دن کو عالمی سطح پر خواتین کے دن کے طورپر منائے جانے کی قرار داد پیش کی اور اس کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے ۔ اور اب تک پاکستان میں نجانے کتنے 8مارچ آئے اور گزر گئے ۔ کوئی شور نہیں اُٹھا۔مگر گزشتہ چند  سالوں سے جب بھی خواتین کا عالمی دن آتا ہے ایک شور سا مچ جاتا ہے ۔

اس میں گزشتہ سال جب میرا جسم میری مرضی والا نعرہ شامل ہوگیا ۔ تو ا ُس وقت یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ آنے والے سال میں اس میں مزید نئے نعرے شامل ہوں گے اور یہ تحریک روز بروز زور پکڑے گی جس میں موم بتی مافیا کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔ اور یہ ایسے نہیں ہو رہا، ایک منصوبہ بندی کے تحت اس کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ 52فی صد آبادی میں پاکستان کی کتنی خواتین اس تحریک کا حصہ ہیں ۔ اپنے گھر میں پوچھیں صاف پتہ چل جائے گا۔ کس کس کے گھر میں خواتین اس مارچ کے حق میں ہیں ۔ہر خاتون یہی کہے گی کہ ہمیں تو زیادہ حق مل رہاہے۔ گھر میں رانی کی طرح راج کر رہی  ہوں  ۔ چھوٹی موٹی لڑائیاں تو محبتیں بڑھاتی ہیں اور زندگی میں ٹوئسٹ لاتی ہیں ۔ کوئی خاتون ایسی نہیں ہوگی جنہیں مرد سے کوئی گلہ ہوگا۔ اگر اس تحریک کی خواتین کو اپنے گھر کے مردوں سے کوئی ٹینشن نہیں ہے تو باہر کے مردوں سے کیوں کر مسئلہ ہوسکتا ہے ۔ اگر انہیں اپنے گھرکے مردوں سے کوئی مسئلہ نہیں تو اُن کے مردوں سے شاید پھر دوسری عورتوں کو مسئلہ ہو۔ مگر بات وہی آتی ہے کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت تیسری دنیا میں ایسی چیزوں کو پروموٹ کیا جاتاہے جس سے آپس میں پھوٹ پڑے اور دوسروں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا موقع ملے ۔

مشرف دور کے بعد جب میڈیا کو آزادی ملی تو لبرلزم کو ملک میں دوام ملا اور ایک نیا کلچر ملک میں پروان چڑھا۔ جو سب کا کلچر نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص گروہ  کا کلچر ہے جس کے اندر وہ خوشی سے اپنی زندگی انجوائے کر رہے ہیں ۔ مگر گزشتہ کئی سالوں سے تواتر سے کچھ دنوں کو اس انداز سے ملک بھر میں منایا جانے لگا ہے کہ وہ ہمیں اب اپنے کلچر کا حصہ معلوم ہونے لگا ہے ۔جس میں ایک خواتین کا عالمی دن بھی ہے ۔ اس سال اس دن کو منانے کے لئے ایک مہینہ پہلے سے ماحول گرما یا گیا تھا جب لال لال آئے گا گروپ مارکیٹ میں لانچ کیا گیا مگر اُس کے دورس نتائج نہیں نکلے تو اُسی دن سے اس عالمی خواتین کے دن کو منانے کے لئے نت نئے حربے آزمانے شروع کردیئے گئے کہ کس طرح یہ تحریک ایک بیانیہ بنائے اور یوں ایک چینل نے بے وقوفی کی انتہا کرتے ہوئے ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کو آنے سامنے لاکھڑا کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہ بات واضح نہیں کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ بات تھی یا واقعی اُن دونوں کے درمیان یہ سب  ہوا ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں چینلز کے کرتا دھرتا اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے ۔شاید دونوں ہی پلانٹڈہوں ۔ کیونکہ خلیل الرحمان قمر کی  رائٹنگ کو دنیا مانتی ہے کہ وہ خواتین کی آزادی کے  کتنے مخالف ہیں ،اُس کے ڈرامے اس بات کے  عکاس ہیں ۔ اورر دوسری جانب ماروی سرمد اس قسم کی باتوں کے لئے مشہور ہے ۔ مگر دونوں آمنے سامنے ایک دوسرے کو گالی سے نوازیں گے اور پھر اس پر ایک بحث شروع ہوجائے گی ۔ جس پر دو بیانئے بن جائیں گے اور یوں جو غیر ملکی ایجنڈا ہے وہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا اور جو اس تحریک کو کامیاب کرانے والے لوگ تھے وہ خاموشی سے اب بغلیں بجا رہے ہیں کیونکہ اُنہوں نے جو انویسمنٹ کی تھی وہ ان کی پوری ہوگئی ہے جبکہ دو لوگوں کو لڑوانے کے بعد ملک بھر میں دو سکول آف تھاٹ بھی بن گئے جس سے ثابت ہوا کہ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں ہم پاکستانیوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور گزشتہ کئی دنوں سے بس یہ ایشو ہی سوشل میڈیا اور میڈیا پر چھا ئے ہوئے ہیں ۔ جس سے اندازہوجاتا ہے کہ آم کھانے والوں نے آم کھالئے اب گٹھلیاں گننے کی ہماری باری ہے ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply