یہ فیمنزم وغیرہ۔۔محمد پیر الطاف

سماجی پس منظر میں حالیہ فیمنیسٹ بھونچال کے بعد یہ بحث جذبات کے ایک ایسے بھنور میں پھنس گئی ہے جس کا اختتام عموماً دشنام طرازی کے مظاہر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمارے دوست جناب عثمان سہیل صاحب نے ایک معصومانہ سوال پوچھا جس کا جواب  مختصراً نہیں دیا جا سکتا تھا۔ لہذا یہ جواب عجلت میں لکھے گئے ایک شذرے کی شکل میں قارئین کی نظر ہے ۔

راقم کا مشاہدہ ہے کہ فیمنزم کے پرچارک اور ناقدین دونوں اس کے تایخی پس منظر اور مباحث سے نابلد ہیں۔ لہذا موضوع کو جذباتیت سے نکال کر خالص علمی بنیادوں پر استوار کیا جانا چاہیے، تاکہ مذہب، فلسفہ ، عمرانیات اور تاریخ کے باہم گنجلک مباحث کی خاکہ بندی کی جا سکے۔ اس کے بعد ہی شاید گھتیوں کو سلجھانا ممکن ہو۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کی گرد چھٹی تو اس سے پیدا شدہ خلاء میں کئی سماجی ، معاشی اور نظریاتی تحریکوں نے سر اٹھایا ۔ان میں مار کسی تحریک ، وجودیاتی فلسفے کی تحریک اور امریکی سول رائٹس جیسی تحریکیں نمایاں تھیں۔ ان تحریکوں نے ایک فرانسیسی فلسفی خاتون سیمون ڈیبووا کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔

سیمون پہلی مفکر تھیں جنہوں نے ۱۹۴۹ میں “ثانوی جنس “ The Second Sex نامی کتاب لکھ کر  یہ نظریہ پیش کیا کہ جنس کے بارے میں ہمارے رویے کا تعین پیدائشی نہیں ہوتا بلکہ یہ تعین سماج کرتا ہے۔ یعنی ہر انسان چاہے جس حیاتیاتی ساخت کے ساتھ پیدا ہو، بحیثیت انسان ایک جیسے احساسات رکھتا ہے۔ مگر سماج کا رویہ چونکہ مرد اور عورت کے بارے میں پہلے سے طے شدہ ہے لہذا پیدائش کے بعد انسان سے اس کی  حیاتیاتی جنس کے مطابق توقعات وابستہ کی جاتی ہیں اور اس کی شخصیت انہی توقعات کے ردعمل میں پنپتی رہتی ہے اور انہی  سماجی سانچوں میں ڈھلتی رہتی ہے۔ یعنی عورت ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتی   جس کے قوائد و ضوابط پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں ، حتی کہ اس کا سماجی تشخص بھی ۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ وجودی یا حیاتیاتی تشخص اور سماجی تشخص دو مختلف جہات ہیں۔

سیمون کی اس تصنیف نے علمی حلقوں میں شدید ردِ عمل کو جنم دیا۔ مگر بعد میں یہی کتاب فیمینسٹ تحریک کی ابتداء اور اس کی منشورِ فکر بنی۔ سیمون ڈیبووا Simone de Beauvoir کے اس نظریے کے مطابق، عورت کی ثانوی حیثیت تاریخی اعتبار سے تین قسم کے سماجی رویوں اور وجوہات سے بنتی ہے۔

اول۔ پدر سری معاشرے میں عورت کے لاشعور میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اس کے وجود کا مقصد مرد کی ضرویات کو پورا کرنا ہے۔ لہذا اس کا وجود ہی ثانوی ہے۔ چونکہ تاریخی اعتبار سے سارے معاشرے ہی پدرسری تھے، لہذا عورت کی یہ ذہنی کیفیت آفاقی ہو چکی ہے۔

دوم۔ عورت کو پیدائش کے بعد اپنے  تشخص کی پہچان کے لیے ان علامات کا سہارا لینا پڑتا ہے جو سماج نے اس سے وابستہ کر رکھی ہیں ، مثلاً، بچی کا گڑیا سے کھیلنا ہی اس رویے کو جنم دیتا ہے کہ وہ ایک صنف نازک ہے، اور اسے خوبصورت نظر آنا چاہیے۔ اگر اس طرح کے Archetype عورت سے مخصوص نہ ہوتے تو عورت کے بارے میں مرد کے رویے مختلف ہوتے۔ حتیٰ کہ عورت کے اپنے بارے میں رویے بھی مختلف ہوتے۔

سوم۔ تاریخی اعتبار سے عورت کی علمی میدان میں کمی اس کے محدود حقوق سے پیدا ہوئی۔ اس کمی نے عورت کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ اب صدیوں پر محیط اس خلیج کو پاٹنا عورت کے لیے اور بھی مشکل ہے۔

مارکسی نظریے میں  جب اینگل  نے عورت کے تاریخی کردار کا مشاہدہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ تاریخی اعتبار سے عورت کا کردار ایک لیبر اور کموڈٹی کے طور پر رہا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام عورت کے اس کردار کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ عورت کو خودمختاری دینے سے سوشلسٹ تحریکوں کی راہ ہموار ہوگی۔
لہذا ایک جانب اس مارکسی  نظریے نے سیمون کو متاثر کیا تودوسری جانب اس کے خیالات پرژاں پال سارتر کے وجودیاتی فلسفے نے گہرے نقوش چھوڑے۔ سارتر اور سیمون نے کافی عرصہ ایک جوڑے کی حیثیت سے ساتھ گزارا۔ سارتر نے وجودیاتی فلسفے میں اس روایتی فکر کو پلٹا دیا تھا کہ انسان ایک تشخص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ سارتر کا خیال تھا کہ انسان پہلے پیدا ہوتا ہے اور بعد میں اپنا تشخص بناتا ہے۔ یعنی وجود جوہرسے پہلے آتا ہے (Existence precedes essence).

سیمون نے سارتر کے اس نظریہ کو بنیاد بنا کر کہا کہ اگر تشخص کا تعین سماج کرتا ہے تو عورت کے تشخص پر بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے۔ چونکہ سارے معاشرے پدر سری رہے ہیں ،لہذا عورت ایک ایسی دنیا میں جنم لیتی ہے جس کے سارے پیمانے مرد پہلے سے سماج میں طے کر چکا ہوتا ہے۔ یعنی عورت کی پہچان کے سارے سانچے مرد بنا چکا ہوتا ہے اور اس کی جنس ، تشخص اور اس سے متعلقہ رویے مرد کے طے کردہ سماجی نظام اور جنسی پیمانوں کی مرہون منت ہوتے ہیں۔

سیمون نے اپنی اس کتاب میں ہیگل کی جدلیات کا سہارا لیتے ہوئے ثابت کیا کہ سماج دنیا کو مرد کی نظر سے دیکھتا ہے جس میں عورت کی  حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ نکتہ ہے جس پر بحث اس مضمون میں ممکن نہیں۔

سیمون کے ہاں صنف نازک ایک سوشل اور پولیٹکل کنسٹرکٹ ہے جس میں عورت کو ایک کمزور انسان کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور بچپن سے ہی اس کو ایک ایسی مخلوق سمجھا جاتا ہے جو جذباتی اور جسمانی لحاظ سے کمزور اور قائدانہ صلاحیتوں سے عاری ہوتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر چونکہ فرانسیسی سماج نہایت قدامت پسند تھا-لہذا سیمون کی اس کتاب پر کیتھولک چرچ کی جانب سے کافی غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ بائیں بازو کے حلقوں نے بھی اسے بورژوا طبقے کا زوال قرار دیا۔ یہاں تک کہ فلسفی ناول نگار البرٹ کمیو نے اسے فرانسیسی مردوں کا ٹھٹھہ اڑانے کے مترادف قرار دیا۔

سیمون کے سارتر سے غیر روایتی جنسی تعلق کو نشانہ بنایا گیا اور اسے ایک نفسیاتی مریضہ قرار دیا گیا۔ مگر غلط یا صحیح ، یہ بات طے تھی کہ سیمون نے ایک ایسے نظریے کو برپا کیا جس کی مثال علمی میدان میں اس سے قبل موجود نہیں تھی۔ عصر حاضر کی فیمینسٹ تحریکیں اگرچہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر چکیں ہیں لیکن سیمون کے افکار کی جھلک آج بھی ان میں نظر آتی ہے۔ فیمینسٹ تحریکوں کی دوسری لہر ۱۹۶۰ کے بعد آئی لیکن مقبول نہ ہوسکیں۔ عصر حاضر کی فیمینسٹ تحریکیں عورت کو اس کی مرضی کا لباس پہننے اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے جیسے محدود مسائل پر مرکوز ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ مطالبات قدامت پسند اور مذہب پسند معاشروں میں شدید ردعمل کو جنم دیتے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ دلچسپ ہے کہ عورت کے بارے میں سامی مذاہب میں جو رویے پائے جاتے ہیں ان کا تعلق مذہب سے کم اور قبائلی ثقافت سے زیادہ ہے۔ مثلاً اسلام سے قبل عرب قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو کافی حد تک خودمختار بنانے میں کردار ادا کیا تاہم عرب قبائلی ثقافت کی عورت کے بارے میں رویے کی جھلک نا صرف عرب بلکہ ہمارے معاشروں میں بھی نظر آتی ہے۔ راقم خود کو مذہبی متون کی تعبیرات برتنے کے قابل نہیں سمجھتا لیکن، یہ بات طے ہے کہ اس بابت مذہبی اصحاب دانش کے آراء میں کافی تضاد ہے ۔تاہم یہ الزام صرف قدامت پسند معاشروں کو نہیں دیا جاسکتا۔ فیمینسٹ تحریکوں کے آغاز سے اب تک مغربی معاشروں کا رویہ بھی کچھ خاص تبدیل نہیں ہوا۔ فیمینسٹ تحریکیں آج بھی اسی درجے کے ردعمل کو جنم دیتیں ہیں جو سیمون کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ چاہے ہم لارا بیٹس کی ٹویٹر مہم پر تنقید کو دیکھ لیں یا می ٹو مہم پر تنقید کو۔ پاپولر کلچر میں آج بھی عورت کو ایک سیکس آبجیکٹ کے طور پیش کیا جاتا ہے جس کے مظاہر ویڈیو گیم کی صنعت سے لیکر اشتہارات کی صنعت تک پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب فیمینسٹ، عورت کے لباس وغیرہ میں خود مختاری پر اصرار کرتے ہیں تو اسے جنسی ہیجان خیزی پر اصرارسمجھا جاتا ہے ۔ یہ تاثر بلا واسطہ فیمیسنٹ تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ اس طرح عصری فیمینسٹوں کی محدود سوچ عورت کو ایک سیکس آبجیکٹ کا تاثربنانے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ “ میرا جسم میری مرضی “ جیسے نعرے اس کی زندہ مثال ہیں۔ اس طرح کے نعرے فیمنسٹوں سے زیادہ اس کے ناقدین کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا پیرا ڈوکس ہے جسے سلجھانا کار دارد ہے۔

سیمون کے نظریے کی بازگشت ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ اس نے نا  صرف ہزاروں سال پر محیط پدر سری نظام پر ایک کاری وار کیا بلکہ اپنے ہم عصر نابغوں کے ایستادہ فکری عمارت کی چولیں تک ہلا دیں جس میں تحلیل نفسی Psychoanalysis کا نظریہ بھی شامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے معاشرتی پس منظر میں یہ بحث پس ماندہ مذہبی تعبیرات ،درآمد عرب قبائلی ثقافت، مردوں کی کمزور نفسیات اور فیمینسٹوں کی جہالت کا ایک ایسا حلوہ ہے جسے پکنے میں ابھی کافی دیرہے۔ لہذا اسے ہلکی آنچ پر پکنے اورچمچہ چلاتے رہنے کے علاوہ شاید ہی  کچھ اور کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply