عوام بے قصور ہے۔۔سانول عباسی

ہمارا مسئلہ نہ تو صوبائی ہے نہ لسانی، نہ مذہبی، نہ قومی اور نہ ہی رنگ و نسل بلکہ سماج میں ان تعصبات کو مصنوعی طور پہ پیدا کیا جاتا ہے تاکہ عوام الناس کے شعور کو منتشر کیا جا سکے اور سماج میں گروہی تعصبات و طبقاتی فرقہ واریت کو اپنی انتہا تک لے جایا جائے عوام الناس کی اجتماعی حیثیت کو تہہ تیغ کر کے انفرادی حیثیت میں اس قدر بے بس و مجبور کر دیا جائے کہ عوامی شعور سر ہی نہ اٹھانے پائے اور اگر کہیں سے کوئی امید کی کرن پیدا بھی ہو رہی ہو تو اپنے مکمل وسائل کو صرف کر کے اس امید کی کرن کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے جس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو معاشرے میں سامراجی خوف پیدا ہوتا ہے دوم استبدادی طاقتیں بےلگام ہو کر من مانی کرتی ہیں انہیں کوئی روکنے والا نہیں رہتا سب سر چھپاتے پھرتے ہیں۔

ہم سب بیوپاری ہیں اپنی اپنی پراڈکٹ لے کر مارکیٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور بولی کے منتظر رہتے ہیں جہاں سے زیادہ بولی لگتی ادھر کو سرک جاتے ہیں یوں تو بیوپاریوں کی بہت سی اقسام ہیں مگر ان میں سے سب سے مکروہ  بیوپاری وہ ہیں جو اپنی فکر لے کے بازار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں کے جذبات کے عوض اپنی فکر بیچتے ہیں، جو سماج میں عوام الناس کے شعور کی غلط سمت متعین کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اپنی فکر سے اپنے لفظوں سے عوامی شعور میں یگانگت بھائی چارہ کی بجائے استحصالی قوتوں کے آلہ کار بن کر عوام الناس میں تعصب کی فضا پیدا کرتے ہیں ،روپے کی چکا چوند جن کے ذہن و دل پہ سوار ہو جاتی ہے عوامی بہبود کی بجائے ذاتی مفاد کو عزیز تر جانتے ہوئے لکھتے ہیں، جن کا ہر لفظ ہر درس عوام میں بیداری کی بجائے تقسیم در تقسیم کا راگ الاپ رہا ہوتا ہے ،جن کی ہر تحریر معاشرے میں افراتفری کے فروغ کے لئے ہوتی ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں  میں مثبت تبدیلی کی بجائے انتشار پھیلنا شروع ہو جائے ،پہلے سے ہی حالات و واقعات، بھوک، افلاس میں پسی ہوئی مخلوق جذبات کی اس نہج پہ ہوتی ہے کہ ایک چنگاری اس بھوسے کے ڈھیر کو آگ کے نہ ختم ہونے والے بھانبڑ میں بدل دیتی ہے، نام نہاد مفکرین حضرات اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، مکمل فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور انتہائی غیر ذمہ داری کے ساتھ اپنی دکان چمکانے، نام ونمود کے چکر میں انسانیت کے جذبات سے کھیلتے ہیں، پہلے سے ہزاروں دھڑوں میں منقسم تشدید کی شکار عوام میں مزید تقسیم و انتشار پیدا کرتے رہتے ہیں۔

ہمارا مسئلہ غاصبانہ نظام ہے جو مراعات یافتہ سرمایہ دار و جاگیردار کے توسط سے ہم پہ مسلط ہے جنہوں نے سماجی نظام کو اپنی لونڈی بنایا ہوا ہے، قانون کو فقط اپنی حفاظت پہ معمور کیا ہوا ہے اور ادارے صرف ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہیں اور یہ اپنی مطلق العنانی حاکمیت کو دوام بخشنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ،نقیب اللہ محسود ہو ،مشال خان ہو ،زینب ہو  یا اسماء ہو، بھوک افلاس ہو یا کوئی بھی عوامی سانحہ ہو، تمام قسم کے سماجی مسائل کو انتہائی عیاری سے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت یعنی مختلف گروہی تعصبات کی نظر کر دیا جاتا ہے جس سے مظالم کا زور تو نہیں ٹوٹتا عوامی شعور ضرور منتشر ہو جاتا ہے اور عوام ان مسائل کو پس پشت ڈال کر تعصبات کو پالنے لگ جاتی ہے اور ایک دوسرے کی طاقت بننے کی بجائے ایک دوسرے کا خون پینا شروع ہو جاتے ہیں۔

عوام بے قصور ہے عوام کا قصور صرف محبت ہے کہ   کھلے دل سے نام نہاد مفکرین کے لئے ان کے دل میں احترام ہے اور وہ انہیں اپنے سے مقدم جانتے ہوئے ان کی بات کو اہمیت دیتی ہے اور یہ نام نہاد لکھاری بے رحم مفاد پرست آلہ کار مفکرین عوام الناس کو سیاسی، صوبائی، قومی، لسانی، علاقائی، مذہبی تعصبات میں دھکیلتے چلے جاتے ہیں اور افلاس زدہ لوگ جو پہلے ہی اپنی غریبی بےچارگی و بےبسی سے لاچار انتہائی تشدید کی آگ میں جلتے ہوئے اپنی ذات میں ایک بم کی شکل اختیار کیے  ہوئے ہوتے ہیں ذرا سی بھی مذہبی لسانی صوبائی یا کسی بھی قسم کی منافرت کی چنگاری دکھانے سے پھٹ پڑتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنا ہی جسم نوچ رہے ہیں اور پسِ دیوار سرمایہ دار اپنے ممکنہ لفظوں کے فکری بیوپاریوں کو مراعات کی ہڈیاں ڈال کے قبیح مسکراہٹ سجائے انسانیت کا تماشہ دیکھتا رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لکھنا عبادت ہے اور جو شخص اپنی عبادت کو بھی خالص نہیں کر سکتا اس پہ صرف آنسو بہائے جا سکتے ہیں یہ انتہائی بڑی ذمہ داری ہے خود پرستی کی دلدل سے نکل کر خود احتسابی کی عدالت میں جب تک نہیں آ جاتے ہر گز مت لکھیں ۔کیونکہ ہمارا لکھا ہوا ہر لفظ سماج میں ذہن سازی کر رہا  ہے اور یہ ذہن سازی سماج میں انسانیت کی فلاح و بہبود م،ثبت طرز عمل ،عوامی مسائل کے درست تعین اور ان کا مثبت حل محبت یگانگت بھائی چارہ کی فضا پیدا کرنے کی بجائے مذہبی، سیاسی، صوبائی ،لسانی ،قومی الغرض کسی بھی قسم کی منافرت پیدا کر رہا ہے عوام الناس میں تشدد کی فضا ہموار ہو رہی ہے تو سماج کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں ہم بھی شامل ہیں اور یہ وبال جان ہے ۔تباہی ہے، ہلاکت ہے اور جانے انجانے ہم استبدادی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عوام بے قصور ہے۔۔سانول عباسی

Leave a Reply