جب کھانےکے بعد مومنین ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگےتودروازے کا ٹوٹا پٹ میرے سر پہ سوار ہوتاچلاگیا،سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کیسے اس منہ چڑاتےسوراخ سے دودوہاتھ کیاجائے؟
آخر کووہی مٹکہ نما ڈھول ہی میرے کام آئے اور اس میں سے ایک کاتنگ پیندامیں نے باہر کی طرف کرکے اس سوراخ میں پھنسادیااورنیچے دواینٹیں بھی رکھ دیں۔ یہ دراصل نہ ڈھول تھے اور نہ ہی قیف یامٹکے بلکہ یہ تھے نقارہ جسےنوبت بھی کہاجاتاہےاور اردوکامشہور محاورہ کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتاہے اسی نقارہ کی طرف اشارہ کرتاہےنقارہ کی آواز بہت گرجدار اور سریلی ہوتی ہے اوریہ اسی امام بارگاہ میں پرانےوقتوں سے رکھے چلے آرہے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ جب لاؤڈ اسپیکر ایجاد نہ ہواتھاتو محرم الحرام کے چاند کی اطلاع نقارہ بجاکر دی جاتی تھی جب اس کی گرجدار آواز یاحسین کی صداؤں کے ساتھ گونجتی توپورے گاؤں کوپتہ چل جاتاکہ عزاداری کے ایام آگئے ہیں۔نقارہ کے منہ پہ چمڑاسختی کے ساتھ چڑھایاہواہوتاہے ،لہذااس کوبجانے سے پہلے اسے آگ کے قریب رکھ کر تپایاجاتاہے جس سے چمڑانرم ہوتاہے اورکسی قدر کھنچ بھی جاتاہے یوں اس کی آواز میں گرج اور زور پیداہوتاہے چونکہ یہ دونوں نقارے بزرگوں کی یادگار تھے اس لئے اب بھی وہاں رکھے ہوئے تھے اگرچہ اب ان کااستعمال متروک ہوچکاتھامگر میرے لئے آوارہ کتوں سے خود کوبچانے کے واسطے یہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے۔
دیہی سندھ میں مبلغ کے لئے سب سے زیادہ اوربہت بڑی مشکل جوپیش آتی ہے وہ بیت الخلاء کی نایاب حدتک کمیابی ہے۔یہاں مساجدتوعام طور پہ بنائی جاتی ہیں اور بعض اوقات مولوی صاحب کے لئے حجرہ بھی تعمیر کیاجاتاہے مگر اس ناگزیر انسانی ضرورت کی طرف بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے،مولوی صاحب رہنےکوتو چھپر اور کسی درخت تلے منجی لگاکے بھی رہ سکتے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔ بس یہاں آکے بندے کی سمجھ ہی جواب دے جاتی ہے کہ وہ دن دیہاڑے کسی کھیت میں چلاجائے توکیونکرچلاجائے ،نہ اسے کھیت کی ملکیت کاپتہ ہے نہ اسے وہاں اچانک کسی کے نمودار نہ ہونے کی کوئی گارنٹی مل سکتی ہےاوررات کوگھپ اندھیرے میں شہری بابو کی ویسے ہی جان نکل جاتی ہے ایسے میں آدمی اس وقت کوکوسنےلگتاہے جب اس کے دماغ میں تبلیغ کاجنون سوار ہواتھا، یہی مسئلہ اس حقیر کے ساتھ مسلسل بارہ دن درپیش رہا۔اللہ جانتاہے کہ ہم اس صورتحال سے کیسے عہدہ براہوتے رہے۔
بہر حال تھکن کے مارے نیند بڑی زبردست آئی اور جب پڑوس کے سید ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے لئے دروازہ کھٹکھٹارہے تھے توصبح کے آٹھ بج چکے تھے۔
منہ ہاتھ دھوکے ناشتہ کیاتودونوجوان حضرات جورات مل کے گئے تھے تشریف لے آئے انہوں نے پوچھاکہ مولوی صاحب! کیاآپ نہاناپسند کریں گے؟
مولوی صاحب کراچی سے پہن کے آئے کپڑوں میں ابھی تک ایک دنیاگھوم چکے تھے اور اس شش وپنج میں تھے کہ کیسے نہادھوکر کپڑے تبدیل کیےجائیں کہ اللہ نے ان جوانوں کوبھیج دیا،سوکپڑے ساتھ لئے اور ہم ان کے ساتھ امرود کے ہرے لدھے پھندے باغات کے درمیان موجود ایک ٹیوب ویل پہ جاپہنچے،انہوں نے یہ تجویز دی کہ جب تک آپ نہادھوکر کپڑے تبدیل کرتے ہیں، ہم باغ سے تازہ تازہ امرود توڑ لاتے ہیں۔ہم نے اس تجویز کو عشرے کی پہلی بہترین تجویز قرار دیا اور انہیں جانے کی اجازت دے کر جھٹ سے نہاکر کپڑے تبدیل کیے۔دونوں برادران تازہ امرود لے کر آئے اور ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں بھگوکر ہم نے امرود نوش جان کیے۔
واپسی پہ پتہ چلاکہ محلے کے باہر مرکزی سڑک کے کنارے جامع مسجد موجود ہے جہاں نماز جماعت توکوئی نہیں ہوتی البتہ ماسٹرخدابخش صاحب جمعہ کی نماز پڑھادیتے ہیں، جس میں بیس سے پچیس آدمی شریک ہوتے ہیں۔یہ ایک سکول ٹیچر کانیارخ تھاجوہمارے سامنے آیا،بعد کے کئی دورہ جات سے یہ بات واضح ہوئی کہ اندرون سندھ گورنمنٹ سکولز کے ٹیچرکے دینی خدمات کے حوالے سے بہت اہم کردار ہے۔وہ سکول میں ٹیچر ہے تواپنی واجبی دینی معلومات کے ساتھ مسجد میں پیش نماز،نکاح کے وقت نماز جعفریہ سے دیکھ کر پڑھنے والا نکاح خواں اور نکاح کے بعدکھانے کی تقسیم کانگران ،کوئی چھوٹاموٹاجھگڑا ہوتومصالحت کار اور کوئی بیمار ہوتوڈاکٹر۔۔۔۔ غرض یہ ہر فن مولااور ہرمرض کی دواہےمگر مجال ہے کہ اس کے ماتھے پہ شکن اور جسم سے تھکن کے آثار ہی نمودار ہوں ۔۔اللہ ایسے مخلص اور کارآمد ٹیچروں کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
ظہرین کی نمازمسجد میں باجماعت پڑھائی، جس میں تین سے چار جوان شریک ہوئے ،جوواپسی پہ میرے ساتھ امام بارگاہ تک آئے اور ایک بھاگم بھاگا دوپہر کاکھانالے آیاجس کے ساتھ کیری کی ایسی مزیدار چٹنی بھی تھی جسے میں نے پہلی بار چکھاتھا۔۔واہ کیاچیز تھی سبحان اللہ۔
کھانے سے ابھی فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک نہایت ہی موٹے سے صاحب السلام علیکم سائیں یاعلی مدد کہہ کے اندر چلے آئے ،ان کی تعظیم کے لئے مجھ سے پہلے وہ جوان اٹھے اور مجھے بھی ان کی پیروی میں اٹھناپڑا۔اہل سندھ کی یہ روایت نہایت شاندار ہے کہ وہ باہر سے آنے والے سے کھڑے ہوکراستقبال اور بھرپورمعانقہ کرتے ہیں پھردونوں ہاتھوں کوجوڑ کر خیریت پوچھتے ہیں اگرچہ وہ شخص دن میں کئی مرتبہ کیوں نہ آئے۔ میں نے ان سے معانقہ کرنے کی کوشش کی ،مگر ان کی ابھری اور مزیدابھرتی توند نے یہ کوشش ناکام بنادی اور ہم ہاتھ ملاکر بیٹھ گئے، ان کی منہ سے ٹھوڑی تک لٹکتی اور مٹکتی گھنی مونچھوں نے ان کے رعب وجلال میں کئی گنااضافہ کررکھاتھا،اوپر سے گرجداراور کرخت آوازاس پہ مستزاد تھی۔ ان کی زبانی پتہ چلاکہ یہ صاحب حسیکو کے ملازم ہیں اورگاؤں میں آنے والے مولوی صاحب کازبانی امتحان یہی لیتے ہیں اور پچھلے سال رمضان المبارک میں کراچی امام حسین فاؤنڈیشن کے ایک سندھی مبلغ کو کسی سوال کاتسلی بخش جواب نہ دے پانےپہ وہ پہلی تاریخ کوکھڑے کھڑے گاؤں پار کرواچکے ہیں۔۔یہ سن کر میرے حواس ہی جاتے رہے اور دل میں عجیب وسوسے آنے لگےکہ یااللہ اگرہم کسی سوال کاان کےحسب منشاجواب نہ دےسکے تو۔۔۔۔۔؟
پھر یہ حضرت ہمارے مرید کیسے ہوئے؟ آگے کی قسط میں پڑھیے گا۔
جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں