ماروی اور خلیل: جیت کس کی ہوئی؟ ۔۔۔ رانا شعیب الرحمن خاں

دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی نظریئے کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اس نظریے پر اسی لئے کاربند ہوتا ہے کہ وہ اپنی دانست میں اس نظریے کو درست تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف متضاد نظریات کو ماننے والوں میں اختلافات کا ہونا کوئی بعید از قیاس نہیں ہوتا۔

اگر 2 متضاد نظریات کو ماننے والوں میں تناسب کا فرق بہت ذیادہ ہو یعنی ایک نظریے کے لاکھوں کروڑوں لوگ فالوورز ہوں اور دوسرے نظریئے کو ماننے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہو اگر ان دونوں نظریات کی 2 نمائندہ شخصیات ایک مجلس میں اکٹھے ہو جائیں جہاں دونوں کو اپنے اپنے نظریات کی تشریح نمائندگی اور دفاع کی ضرورت پڑے پہلے تو میرا خیال ہے کہ اکثریت کے نمائندے کو اپنے قد کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیت کے سامنے بیٹھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جیسے سیاسی میدان میں ایک اکثریتی پارٹی کا نمائندہ لیڈر کسی تانگہ پارٹی کے لیڈر کے سامنے کسی مباحثے میں نہیں بیٹھے گا وہ اس کے سامنے بیٹھنے کو اپنی توہین سمجھے گا لیکن اگر کبھی اسے اچانک ایسی کسی جگہ کسی کے سامنے کسی مباحثے میں بیٹھنا پڑ جائے تو وہ اس وقت اپنے آپ کو ایک پل صراط پر کھڑا ہوا محسوس کرے گا کیونکہ اکثریت کے اس نمائندے کو اپنی زبان اپنے الفاظ اپنے لہجے پر پورا اختیار رکھنا پڑے گا

اسے تہذیب کے دامن کو نہایت مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔ اس کا مخالف اسے چڑانے کے لئے آوازہ کسے گا بیچ میں ٹوکے گا بے رخی سے گردن کو جھٹکا دے گا منہ ایک طرف کرکے ہونٹوں کے ایک کنارے پر شاطرانہ مسکراہٹ لائے گا کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اس کی کوئی چیز داؤ پر نہیں لگی ہوئی اسے کسی چیز کے کھونے کا کوئی خوف نہیں بلکہ اگر اس کے کسی شاطرانہ حربے سے اکثریتی پارٹی ہکا نمائندہ غصے میں آ کر آپے سے باہر ہو جائے زبان پر اس کا قابو نہ رہے اور آپس میں گالیوں کا لین دین شروع ہو جائے تو یہ اقلیتی نمائندے کی جیت ہو گی اور اگر ان تلخ جملوں اور گالیوں کی ریکارڈ شدہ ویڈیو پوری ملک ہی نہیں پوری دنیا میں وائرل ہو جائے تو یہی چیز اقلیتی پارٹی اور اس کے نظریے کو شہرت کی بلندیوں تک لے جائے گی۔

اب آتے ہیں اس واقعے کی طرف جو حالیہ دنوں ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو میں ایک بحث کے دوران پیش آیا جس میں ماروی سرمد اور خلیل الرحمٰن قمر کے درمیان تند و تیز اور تلخ جملوں اور گالیوں کا تبادلہ ہوا جہاں تک میرے ذاتی نظریئے کا تعلق ہے تو وہ ماروی سرمد کے انتہائی متضاد ہے لیکن یہاں میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ اس ٹاک شو میں خلیل الرحمٰن قمر نے خود ساختہ طور پر میرے اور کروڑوں پاکستانیوں کے نظریئے کی نمائندگی کرنے کی بے ڈھنگی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے میرے اور پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے نظریئے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی بھی ناممکن ہے کیونکہ ماروی سرمد جیسی چند عورتیں اسلام آباد کی ایک سڑک پر مارچ کر کے میرے اور کروڑوں پاکستانیوں کے نظریئے کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھیں۔  ان کا میرا جسم میری مرضی کا یہ نام نہاد نعرہ اور نظریہ چند سالوں میں اپنی موت آپ مر جاتا لیکن خلیل الرحمٰن قمر جیسے ریٹنگ اور شہرت کے بھوکے عاقبت نااندیش شخص کی وجہ سے میرا جسم میری مرضی کے وینٹی لیٹر پڑے ایک نوزائیدہ بچے جیسے نظریئے کو توانائی ہی نہیں مزید زندہ رہنے کا امکان حاصل ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ حقیقت ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر اس وقت بہت سے جذباتی لوگوں کے نزدیک ایک ہیرو کا درجہ اختیار کر گیا ہے لیکن آنے والے حالات سے باخبر اہل دانش کو اس چیز کا ادراک ہے کہ یہ شخص خود ہیرو بننے کے چکر میں ان کے بے نام مخالفین کو بھی نامور بنا گیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply