ویلنٹائن ڈے اور گنے کا کھیت

آپ بے حیائی کے راگ الاپتے رہیے, ویلنٹائن کے سرخ تحائف پہ فتوے لگائیے یا پابندی مگر بات یہ ہے آپ باتیں ہی کرسکتے ہیں.آپ سے تو پچھلی نسل کے سادہ لوح انگوٹھا چھاپ بھی بہتر تھے.جب دیکھتے کہ لونڈا تیل شیل لگا کے مانگ نکالنے لگا ہے.فوراً سے پیشتر ذمہ داریوں کا پٹہ ڈال دیتے تھے.چیت کے مہینے میں, جس کے بارے میں مثال مشہور ہے کہ کانی بھی کاجل بنا نہیں رہتی,میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کرتے تھے کہ کچھ موسم ایسے ہوتے ہیں جن میں طبیعت مچلتی ہے.کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں دونوں پہ نظر رکھتے تھے.ذرا سی شوخی نظر آئی لقمے گھٹا اور کام بڑھا دیتے تھے.بے حیائی کی روک کیلیے ہر ممکن قدم اٹھاتے تھے.بے حیائی مگر تب بھی کہیں کسی گنے کے کھیت میں سے سر نکال لیتی تھی کہ انسان انسان ہے خطا کا پتلا اور ازلی دشمن کا ازل سے شکار بھی.مزے کی بات یہ کہ کھیتوں کا بے حیا نہ ناول پڑھتا تھا,نہ فلمیں نہ ڈرامے.مغربی سازش کا شکار کیسے ہوا؟ معلوم ہے ناں! کہ اصل میں اندر با حیا ہو تو باہر کی بے حیائی دیکھ کے آنکھ جھک جاتی ہے.
آپ نے مگر کیا کیا اندر کی بے حیائی کے خاتمے کیلیے. مستقبل سنوارنے کے نام پر شادیوں میں تاخیر کو رواج دیا. نوجوانوں کی صلاحیتوں کے مثبت استعمال کیلیے ھم نصابی مثبت سرگرمیوں سے صرف نظر کرکے نئے ماڈل کا موبائل فون اور نئے ماڈل کی موٹر بائیک لے دینی ضروری خیال کی.کیا ویلنٹائن ڈے ون ویلنگ سے زیادہ خطرناک ہے؟تعلیم کے نام پر بچوں کو بیوپاریوں کے حوالے کرکے ان کی تربیت سے بھی بے فکر ہو گئے. رہ گئے آپ کے ادبی تخلیق کار جنہیں عشروں سے سوائے ‘محبت’ کے اور کوئی موضوع ہی میسر نہیں.محبت بھی وہ نہیں جو انسانی زندگی کا حسن ہے.جو ہر رشتے کا لازمی جزو ہے.بلکہ ان کی محبت وہ تشنہ جنسی جذبات ہیں جنہیں وہ ہر دم ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں جہاں کہیں کوئی گوری کلائی, کوئی لال دوپٹہ کسی کھڑکی کی اوٹ سے, کسی تانگے رکشے میں سے نظر آجائے وہیں اس نام نہاد پاکیزہ جذبے کو تھوپ آتے ہیں.
حضور ثقافت اسی کو کہتے ہیں کہ ایسے طور طریقے اور تہوار ترتیب دیے جائیں جن سے انسانی فطرت میں موجود جبلتوں کو لگام ڈال کر انہیں مثبت راہ پہ ڈالا جائے.مگر کیا کیجیے کہ آپ کو کچھ لفظوں سے چڑ ہے جن میں سے ایک ثقافت ہے.پہلے نوجوانوں کی جوشیلی طبیعت کو قابو رکھنے کیلیے کوئی مثبت سرگرمی دریافت کیجیے پھر بے شک مغرب پہ لعنت ملامت کرتے رہیے گا.باتیں کرنے سے تو نسلیں نہیں سدھرا کرتیں.

Facebook Comments

فاروق امام
پسماندہ کہلائے اور رکھے جانے والے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام پاکستانی. ہر پاکستانی کی طرح ویلا مصروف اور نویلا " دانشگرد"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply