• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا بی جے پی ہندوستان کے مزید ٹکڑے کرنے کا ذہن بنا چکی ہے؟ ۔۔۔ بدر کاظمی

کیا بی جے پی ہندوستان کے مزید ٹکڑے کرنے کا ذہن بنا چکی ہے؟ ۔۔۔ بدر کاظمی

حال ہی میں سابق میمبر پارلیمنٹ پچاسی سالہ بزرگ رہنما الیاس اعظمی نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کی تقسیم کے فیصلے کو کانگریس کی طرف سے قبول کرلئے جانے کے بعد سردار پٹیل چاہتے تھے کہ ہر دو ممالک کے درمیان آبادی کا تبادلہ بھی ہوجائے تاکہ کل کلاں ہندو مسلم کا کوئی مسئلہ باقی نہ رہے۔

اسکے لئے انکی تجویز تھی کہ مسلمان ون تھرڈ ہیں سو انکو اتنا ہی علاقہ دیکر اس مسئلہ کو ہمیشہ کیلئے حل کرلیا جائے، گاندھی جی کو جیسے ہی پٹیل کے عزائم کا پتہ چلا تو انہوں نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے پٹیل کو سمجھایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا رہنا ہماری ایکتا کیلئے ضروری ہے، اگر مسلمان ہندوستان میں نہیں رہینگے تو ہندو کھڑے نہیں رہ سکتے اور وہ سماجی طور پر بکھر جائیں گے، جسکے نتائج ملک کیلئے تباہ کن ہونگے، سو اسلئے ضروری ہے کہ مسلمان ہندوستان میں رہیں ہم انکی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتے اور آزادی کے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔

خیال رہے الیاس اعظمی مسلم مجلس کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی علیہ الرحمۃ کے اصول و نظریات کے علمبرداروں میں شامل رہے ہیں یہ بات دیگر ہے کہ انہوں نے بھی عارف محمد خان اور اعظم خان کی طرح ایک زمانے بعد اپنا راستہ بدل لیا تھا۔ وہ گیارہویں اور چودھویں پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں، اسلئے انکی بات کو ہوا ہوائ کہکر نہیں ٹالا جانا چاہئے بلکہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ موجودہ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کے تعلق سے پے درپے آئین وقانون میں جس طرح تبدیلی کررہی ہے اور انہیں دیوار سے لگادینے اور اسکے لئے تمام اداروں کو پابند حکومت بنانے کا جو طریقہ کار اختیار کئے ہوئے ہے۔ گویا کہ وہ سردار پٹیل کے خواب کو بروئے کار لانے اور ملک کو مزید تقسیم کی طرف لیجا نے کیلئے کمر بستہ نظر آتی ہے اور اسکے لئے ایسا ماحول تیار کررہی ہے۔

ٹھیک ایسے موقع پر جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑی طاقت کےسربراہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر تھے، ٹھیک اس موقع پر دہلی میں فسادات کا ہونا اور تین دن تک بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہنا کیا دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ اب ہندو مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، انکا مستقل حل تلاش کرنا ضروری ہے اور اگر اسکے لئے کچھ علاقہ دیکر بھی اقلیتوں سے نجات حاصل کرلی جائے تو وہ اسکے لئے بھی آمادہ و تیار ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ۷۰ سال کے دوران ہرطرح کی نا انصافیوں اور ظلم و ستم سہنے کے باوجود مسلمانان ہند کے کسی بھی ذمہ دار شخص یا جماعت کی جانب سے ایک لفظ بھی ایسا نہیں ادا کیا گیا ہے جس سے ملک کی سالمیت اور سلامتی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ موجود ہو اور اگر یہ بات کہیں سے اٹھائی جارہی ہے تو وہ ہندوتوا کے ملٹری کیمپس ہیں جن میں ہندوستان میں خانہ جنگی اور اسکیلئے تیاری کی بات کھلے الفاظ میں کی جارہی ہے یو ٹیوب پر اس کے بہت سے نمونے موجود ہیں جن کہا جا رہا ہے کہ بچوں کو ملٹری ٹریننگ ہندوستان میں مستقبل میں ہونے والے خانہ جنگی سے نمٹنے کیلئے دی جارہی ہے۔ نمونے کے طور پر ایسے ایک ملٹری کیمپ کی اس کلپ کو دیکھا جا سکتا ہے https://www.youtube.com/watch?v=nu7KcnIY6D8

اس کے علاوہ یوں تو وزیر اعلیٰ اتر پردیش یوگی ادتیہ ناتھ کی مسلم دشمنی پر مبنی تقاریر سے یو ٹیوب بھری پڑی ہے ( https://www.youtube.com/watch?v=cIBm2voGIvA) مگر ایک تقریر میں انہیں صاف صاف کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تہذہبیں ہیں اور یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

یہ ایک خطرناک رحجان ہے جس پر توجہ دینے اور ملک کی سالمیت کو باقی رکھنے کیلئے تمام اقلیتوں اور جمہوریت و انصاف پسند اور قومی یکجہتی میں یقین رکھنے والوں کو متحد ہوکر اسکے خلاف کھڑے ہونا اور ملک کو بیدار کر عوامی تحریک کے ذریعہ اسکا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ اسکے نتائج ملک کیلئے بالخصوص اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کیلئے انتہائی تباہ کن ہونگے، ایسی کسی بھی کوشش اور رحجان کی سختی سے مذمت کیساتھ اسے روکنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، اقوام متحدہ کی بین الاقوامی حقوق انسانی کی طرف سے شہری ترمیمی ایکٹ میں سپریم کورٹ میں فریق بنائے جانے کی درخواست غیر معمولی اور اس خدشہ کو درست ثابت کرنے کا الارم تو نہیں ہے؟

(مصنف  آل انڈیا مسلم مجلس کے جنرل سیکریٹری ہیں)۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply