عورت کے جسم اور مرضی دونوں سے مسلئہ ہے: سید علی نقوی

پچھلے سال میں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس کا عنوان تھا ” آپ نہیں یہ ہیں مثالی خواتین” ۔ پچھلے سال تو زیادہ دوستوں نے اس پر بات نہیں کی لیکن اس سال خلیل الرحمٰن قمر صاحب کے اس کارنامے کے بعد انکے حامی مجھے میرا کالم بھیج بھیج کر یہ جتا رہے ہیں کہ میں تو کل تک خود یہی کہہ رہا تھا جو آج خلیل الرحمٰن قمر کہہ رہا ہے. اللہ مجھ پر رحم کرے اگر کبھی میں نے وہ کہا یا سوچا ہو جو یہ آدمی کہہ رہا ہے کالم آج بھی موجود ہے اس کا خلاصہ پیش کرکے میں آگے بڑھ رہا ہوں۔
اس کالم میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ حق مانگنے کے لیے تصادم ضروری نہیں ہوتا جن سات یا آٹھ خواتین کی مثال دی تھی انکی زندگی اور جدوجہد سے یہ اخذ کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان جدوجہد تصادم کی طرف نہیں بلکہ تعمیر کی طرف تھی مثالوں میں فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو، نصرت بھٹو، عاصمہ جہانگیر، ملالہ یوسفزئی، منیبہ مزاری، کلثوم نواز اور جمائما خان کی مثالیں دی تھی اور یہ کہا تھا کہ یہ خواتین کبھی معاشرے سے تصادم کی طرف گئیں بلکہ معاشرتی اقدار کو اپنایا اور اس میں رہتے ہوئے معاشرے سے اپنے حقوق لینے کی جدوجہد کی.. مجھے گزشتہ سال کے عورت مارچ پر اعتراض یہ تھا کہ جو طریقہ اپنایا گیا وہ ایک ایسی عورت کے لیے تو قابلِ قبول ہو سکتا ہے کہ جس کی تربیت ایک کھلے ماحول میں ہوئی ہو لیکن اگر آپ اپنی جدوجہد میں ان عورتوں کو شامل کرنا چاہتی ہیں کہ جو اصل ہدف ہیں تو وہ آپکی بات اس لیے بھی نہیں سنیں گی کیونکہ آپکا اصل منشور تو ان نعروں میں دب گیا ہے جو شاید آپکی اولین ترجیح نہیں تھے.. میں نے یہ لکھا تھا کہ قندیل بلوچ میرے لیے مظلومیت کی ایک علامت ضرور ہے لیکن کیا اسکو ایک ماڈل عورت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟؟ اور اگر کوئی یہ کرے کا تو وہ اپنی ہی کاز کو نقصان پہنچائے گا، میرا جسم میری مرضی کا سلوگن بلکل ٹھیک ہے لیکن اس کا غلط مطلب نکالا جانا بہت آسان تھا اور یہی ہوا اسُ ابہام جو اس نعرے میں موجود ہے نے قمریوں کو موقع دیا کہ وہ اس پورے مارچ کو ہی سبوتاژ کردیں میں نے یہ لکھا تھا کہ اس ملک میں کتنے فیصد عورتیں وہ ہیں کہ جو ایک ایسی خاتون کی بات توجہ سے سنیں جس کی دو طلاقیں ہو چکی ہوں، جو سگریٹ یا ہیش سرعام پیتی ہوں مجھے اپنا جملہ یاد یہ کہ مرد چھوڑیے اس طرح آپ عورتوں کو بھی بات نہیں سمجھا پائیں گی…یہ تھا اس کالم کا ایک چھوٹا سا خلاصہ اب آئیے آگے بڑھتے ہیں عورت مارچ کی قباحتیں اپنی جگہ لیکن جو یہ قمریوں کا لشکر برآمد ہوا ہے ذرا اس پر غور کرتے ہیں میری اس شخص کے بارے میں اس وقت جب اس نے “لنڈا بازار “لکھا تھا یہ رائے تھی کہ یہ ایک بہت سطحی آدمی ہے کیونکہ “لنڈا بازار” اور “میرے پاس تم ہو” دونوں انتہائی سطحی ڈرامے ہیں جن میں کہانی نام کی کوئی چیز موجود ہے ہی نہیں آج کتنے لوگ ہیں کہ جن کو اس وقت کے سوپر ہٹ “لنڈا بازار” کی کہانی یاد ہو؟ کہانی وہ زندہ رہتی ہے جس میں جان ہو.. جب
“میرے پاس تم ہو” آیا تو پاکستان کی بد مزاج، تماش بین طبیعت، حسِ لطیف سے عاری ڈرامہ آڈینس ایک بار پھر پاگل بنی واہیات سٹوری لائن، مناسب پروڈکشن، گھٹیا ترین ایکٹنگ، اوسط درجہ سے نیچے کے میوزک سے مزین یہ ڈرامہ سوپر ہٹ ہوا وجہ گرما گرم ڈائیلاگ اور یہ تاثر کہ شاید کچھ سین بھی دیکھنے کو مل جائیں…
(اللہ ان عقلوں پر رحم کرے جو خلیل الرحمٰن کو رائٹر اور ہمایوں سعید جیسوں کو ایکٹر مانتے ہیں).
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے کہ آپ ڈرامہ لکھیں جس کو پسند ہے دیکھے جس کو نہیں نہ دیکھے لیکن یہی خلیل الرحمٰن جب دانشور، ادیب اور مصلح معاشرہ بن کر مسلط ہونے کو تیار ہو جائے تو ہمیں شدید مسئلہ ہے یہ آدمی اپنے ڈرامہ کے کردار کو جو چاہے کہے جتنے مرضی ٹکے اس کی قیمت لگوائے لیکن اگر اصل زندگی میں کسی بھی عورت کو گالی دے گا، اسکو ہراساں کرے گا، اسکی باڈی شیمنگ کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ ناقابل برداشت ہے..
اب سوال یہ ہے کہ قمریوں کو اس ایک نعرے سے مسئلہ کیا ہے پہلی بات تو یہ کہ پورے عورت مارچ میں اگر آپکو صرف یہ ایک نعرہ ہی نظر آیا تو یہ تو آپکی اعلیٰ ترین سوچ کا عکاس ہے اس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ آپکی سوچ جنسی مسائل سے آگے بڑھ ہی نہیں سکی اور دوسری یہ کہ آپکو عورت کے جسم میں سوائے جنسی اعضا کے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا میں اپنے قمری بھائیوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عورت کے جسم میں وہی سب ہے جو آپکے جسم میں ہے آئیے ذرا نعرے سے متعلق ایک اور پہلو پر غور کرتے ہیں ڈاکٹر جب کسی کی سرجری (جو اسکی زندگی بچانے کے لیے ہوتی ہے) کر رہا ہوتا ہے تو وہ بھی اسکی اجازت لکھائی میں لیتا ہے کہ ہم جو یہ آپریشن آپکی زندگی بچانے کے لیے کر رہے ہیں اس کے لیے بھی آپکی اجازت درکار ہے، کل حسن نثار قمری فرما رہے تھے کہ میرا جسم میری مرضی کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ میں تمہیں تھپڑ مار کر کہوں کہ میرا ہاتھ میری مرضی جناب مسئلہ سادہ سا ہے لیکن آپ سمجھ نہیں پا رہے بھائی جو ڈیمانڈ وہ اپنے لیے کر رہا ہے وہی ڈیمانڈ آپکے لیے بھی ہے کہ ہر ایک کا جسم اسکی مرضی کے مطابق ٹریٹ ہونا چاہیے کوئی بھی کسی کو تھپڑ نہ مار سکے یہ ہے اسکا مطلب کوئی بھی چاہے وہ مرد ہو یا عورت کسی دوسرے مرد یا عورت کو گھور نہ سکے، ہراساں نہ کر سکے، اسکے ساتھ جسمانی تعلق قائم نہ کر سکے جب تک دونوں کی مرضی نہ ہو، کوئی جا کر حسن نثار کو بتائے کہ وہ مہذب دنیا کہ جس کے وہ شیدائی ہیں وہاں ایک ٹرم ہے Marital Rape یعنی اگر عورت کی مرضی نہیں ہے تو اس کا شوہر بھی اگر اس کے ساتھ سیکس کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ ریپ یقنی زنا کہلائے گا… کل ملا کر بات اتنی سی ہے لیکن چونکہ ہم نے دانشور بھی جی ایچ کیو سے لیے ہیں تو وہاں تو مرضی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی.
ہمارا معاشرہ جس جہالت اور استعماریت سے گزرا ہے وہاں ہمارے معاشرے کے حکمران طبقے کو جو چیز سب سے بری لگتی ہے وہ محکوم کی مرضی ہے اس لیے سب سے پہلے حکمران طبقہ اس پر قبضہ کرتا ہے، ہمارے حکمران ذہن کا ایک بڑا مسئلہ اور خواہش تسلط ہے جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نوے فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ آبادی مرد اور عورتیں دونوں عورت پر مرد کی حکمرانی کے قائل ہیں اور یہ بات صدیوں سے رائج ہے اسی لیے عورتوں سے متعلق بیشتر فیصلے مرد کرتے ہیں میں ایسے کئی خاندان جانتا ہوں کہ جہاں عورتوں کے انڈر گارمنٹس انکے مرد خرید کر لاتے ہیں کیونکہ عورت دوکان پر جا کر اپنے سائز کا انڈر گارمنٹ اگر مانگے گی تو دوکاندار کے دماغ میں اسکے جسمانی خدوخال کی شبیہہ ابھرے گے اور یہ بات مرد کے لیے ناقابل برداشت ہے لہذا اس کا حل یہ ہے کہ عورت گھر بٹھا دی جائے لیکن کبھی کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ مرد کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ اپنا گندا دماغ جو اسکو ہر بار عورت کی شلوار کے اندر گھسا دیتا ہے اسکو بھی صاف کرنے کا کوئی بندوبست کیا جائے، بچی پیدا ہوگی یا نہیں، اگر بدقسمتی سے پیدا ہوگئی تو وہ کیا پڑھے گی، وہ نوکری کرے گی یا نہیں، اگر کرے گی تو اسکی شرائط کیا ہوں گی، وہ کہاں جائے گی اور اسکو کون ملنے آئے گا، وہ کیسے کپڑے پہنے گی، وہ کیا خیالات اپنائے گی، اسکی شادی کسی انسان سے ہوگی یا قرآن سے، وہ کتنے بچے پیدا کرے گی، جائیداد میں اسکا حصہ ہوگا یا نہیں اس سب کہ فیصلہ کوئی نہ کوئی مرد کرتا ہے وہ باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو بیٹا ہو، یا دلال ہوتا مرد ہی ہے کیونکہ مرد نے خود کو عورت سے اسی طرح افضل سمجھ لیا ہے جیسے انسان نے خود سے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ لیا ہےیہی آدمی کی فطرت کا تکبر ہے جو اسکو انسان بننے سے روکے ہوئے ہے آپ ذرا وہ کلپ دیکھیے اور بتائیے کہ جس طرح سے اس آدمی نے ماروی سرمد کی باڈی شیمنگ کی ہے کیا وہ اللہ کے بنائی ہوئی افضل مخلوق کی سوچ ہو سکتی ہے؟؟
اب آتے ہیں اس طرف کہ قمریوں کا مسئلہ کیا ہے قمریوں کو مسلہ وہی ہے جو (معذرت کے ساتھ) ایک دلال کا ہوتا ہے ذرا غور کیجئے کہ دلال کا اثاثہ کیا ہوتا ہے کل ملا کر تین چیزیں سب سے قیمتی وہ گاہک جو بازار میں پھر رہا ہے اور اسکی جیب میں موجود پیسے، دوسری اور تیسری چیز اس عورت کا جسم اور اسکی مرضی ہے جو اسکے کوٹھے پر بیٹھی ہے کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک ایسی لڑکی جو کسی کوٹھے پر رہتی ہو اور وہ مرضی بھی رکھتی ہو؟ وہ غذا اسی دلال کی مرضی کی کھاتی ہے، سوتی اور جاگتی بھی اسی کی مرضی سے ہے اگر اسکو بخار ہو تو یہ بھی دلال کی مہربانی پر منحصر ہے کہ وہ اسکو بخار کی دوا دیتا ہے یا نہیں لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ تقریباً ہر وہ لڑکی کہ جو کوٹھے پر رہتی ہے اسکو ماہواری مختصر کرنے اور اسقاط حمل کی دوا باقاعدگی سے کھلائی جاتی ہے ان ادویات کے مسلسل استعمال سے عورتوں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے یہ آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھ لیں میں آگے بڑھتا ہوں لوگ کہتے ہیں کہ کہاں امتیاز کیا جاتا ہے عورت اور مرد میں آئیے میں آپکو بتاتا ہوں کہ اردو تو ادرو انگریزی زبان میں ایک لفظ ہے Nymphomaniac اسکا مطلب ہے ایک ایسی عورت کہ جس کے اندر سیکس کرنے کی بے تحاشا خواہش ہو اور وہ خواہش اسکے کنٹرول سے بھی باہر ہو ایسی عورت کے کے لیے یہ ایک پوری اصطلاح موجود ہے لیکن ایسی کوئی اصطلاح مرد کے لیے موجود نہیں ہے میرے خیال میں مرد کے لیے اصطلاح کی ضرورت اس لیے نہیں پڑی کیونکہ شاید نوے فیصد مرد ایسا ہی ہے اور باقی دس فیصد ایسا ہی بننا چاہتا ہے، اس لیے اس عورت مارچ میں شرکت کرنے والی ہر عورت گشتی ہے لیکن وہ عمران خان کہ جس کے گشت پنے کی ایک دنیا گواہ ہے وہ آج بھی ایمانداری اور شرافت کا ماونٹ ایورسٹ ہے، اسی لیے کپڑے اتارنے والی قندیل ویشیا ہے لیکن اسکو عید شو کی ریٹنگز بڑھانے کے لیے سوئمنگ سوٹ میں ملبوس کرا کر سوئمنگ پول میں اتارنے والا سہیل واڑئچ دانشور ہے، جن مردوں کو یہ نعرہ سمجھ میں نہیں آتا وہ کبھی جون کی گرمی میں اپنی بہن کی یا بیوی کی مرضی سے برقع پہن کر بازار جائیں واپسی سے پہلے پہلے وہ یہی نعرہ لگا رہے ہوں گے..
معاملہ ملکیت کے تصور کی تشریح کا ہے ہم نے صدیوں سے عورت اور بکری گائے کا فرق نہیں کیا ہمارے لیے دونوں ایک بات ہیں اور ہمارے مذہبی مرد نے تو اللہ سے لے کر نبوت تک اور وہاں سے لیکر عورت تک سب کی حفاظت چونکہ اپنے ذمے لی ہوئی ہے اس لیے یہ مرضی والی بات اس کے لیے نا قابلِ برداشت ہے
یہ قندیل بلوچ کے بھائیوں پر مبنی مردوں کا ایک نا مرد معاشرہ ہے جس کا اعلان اس ملک کے ہر شہر اور گاؤں کی دیوار پر لگے حکیمانہ اشتہار کر رہے ہیں سنا ہے کہ دلال بھی کبھی اپنے کوٹھے پر موجود لڑکی کے ساتھ نہیں سوتا کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ دلال بنتا ہی وہ ہے جو نا مرد ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply