• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اکیسویں صدی کا سوشلزم کیا ہے؟ ۔۔دیمترس کاریگانس، پاویل بلانکو/ترجمہ: شاداب مرتضی(قسط 1)

اکیسویں صدی کا سوشلزم کیا ہے؟ ۔۔دیمترس کاریگانس، پاویل بلانکو/ترجمہ: شاداب مرتضی(قسط 1)

بیسویں صدی کے آخر میں عالمی ردِ انقلاب نے نظریاتی میدان میں “تاریخ کا خاتمہ” کے نظریے کو تقویت دی۔ اس مہم کا مقصدسرمایہ دارانہ نظام کے ابدی ہونے کی تصدیق کرنا تھا۔ اس مہم کا محور مارکسزم-لینن ازم کی صداقت پر سوال اٹھانا تھا۔ اس کا مقصد محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کو ان کی آزادی کی جدوجہد میں غیر مسلح کرنا تھا۔ اسے “نظریے کے خاتمے” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سامراج کے خدمت گزار مفکرین کے ذریعے تیار کردہ اس ڈھونگ کی بنیاداس بحران کے اثرات کو استعمال کرتے ہوئے کمیونزم کے نظریے اورسوشلزم کی تعمیر کے اس عمل کو بدنام کرنا تھا جو سوویت یونین اوریورپ، ایشیاء اورافریقہ کے دیگر ملکوں میں مزدور طبقے کی عارضی پسپائی کی جانب لے گیاتھا۔

اسی دوران، ان وقتی الجھنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئےجو مزدور تحریک اور کمیونسٹ پارٹیوں میں، جن میں سے کئی پارٹیاں خود کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں میں بدلنے کے لیے اپنی شناخت اورمقاصد سے دستبردارہوگئیں، سرائیت کرگئی تھی، اس نے نئی قسموں کے غالب نظریے کے ابھار کی نشوونما کی ، جیسے کہ “پوسٹ ماڈرن ازم” یا اسی قسم کے دیگرنظریات تاکہ نا صرف یونیورسٹیوں اورسکولوں اور فن و ثقافت پراثرانداز ہواجائے بلکہ ٹریڈ یونینوں، عوامی تحریکوں اورتنظیموں ، بائیں بازو کی سیاسی قوتوں اور ترقی پسند دانشوروں میں نفوذ کرکے کمیونسٹ اورمزدورتنظیموں کو منفی طورپرمتاثر کیا جا سکے۔

تاہم سامراجی حکمتِ عملی کے عمومی مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ حقیقت کو جکڑا نہیں جا سکتا اورطبقاتی جدوجہد ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکی ،اس حقیقت کے باوجود کہ وقتی طورپرکامیابی حاصل کرنے والے ردِ انقلاب نے تاریخی واقعات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے انہیں پروپیگنڈہ کے ساتھ مسخ کیا۔ دیوارِ برلن کے انہدام کے بیس سال بعد اورعقل دشمنی کی اس تمام یلغار کے باوجود آج سرمایہ دارانہ نظام بحران سے دوچار ہے اورتمام براعظموں میں مزدور طبقے کی کمیونسٹ اورسامراج مخالف تحریکیں اس کا سامنا کررہی ہیں۔ تاہم، ثانوی انداز سے، الجھنوں کے اس دورنے ایسی ذرخیر زمین کے طورپر کام کیا جن میں ان خیالات کی نشوونما ہوئی جو آج دنیا بھر کی عوام اوربین الاقوامی مزدورطبقے کی جدوجہد کو نئی مفید سطح پر لے جانے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

یہ نئے خیالات نام نہاد “اکیسویں صدی کے سوشلزم” میں آکر اکھٹے ہوتے ہیں۔اس نام نہاد “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے تصور کو سیاسی اورنظریاتی بہاؤ کی کسی ایک قسم کی نظریاتی وضاحت کی حیثیت سے شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان مختلف قسموں کے تصورات پرمشتمل ہے جو مارکس ازم،لینن ازم سے اوربین الاقوامی کمیونسٹ تحریک سے عداوت رکھتے ہیں۔۔ مثال کے طور پر متعدد ٹراٹسکائی گروہ،نئے بائیں بازو کے وارث،”لاطینی امریکی” مارکسی”تحریک پرستی” اور نئے انارکزم کے طرفدار، ایسے دانشور جو تعلیمی ڈھانچے میں تخلیق کیے گئے اپنے خیالات کو سماجی افعال کے لیے لازمی اوربنیادی تصور کرتے ہیں۔

ان تصورات کی سرپرستی کو کسی ایک فکری دھارے سے یا کسی ایک واحد مصنف سےمنسوب نہیں کیا جا سکتا حالانکہ اس کے تمام مصنفوں نے لاطینی امریکہ، خصوصاً وینزویلا، بولیویا اورایکواڈور میں جاری تحریکوں کو اپنے خیالات کے محورکے طورپرپیش کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے تصورات کو عالمی قراردیے جانے کے دعوے کی تردید نہیں کرتا اورنہ ہی اس بات کی کہ کوئی بھی چیز جوان تصورات کے دائرے سے باہر ہے اسے ناقابلِ عمل قراردے کر نااہل کردیا جائے۔ ان کے نکتہ نظر کا ایک اورعنصر یہ ہے کہ یہ سب اس بات پراصرار کرتے ہیں کہ ان کا نکتہ نظر “نیا”، “تخلیقی” اور “خالص” ہے۔ اس کے مقابلے میں، بیسویں صدی کی مزدورتحریک اورمارکس ازم-لینن ازم کے خیالات ان کی نظر میں پرانے اورفرسودہ ہیں۔

طبقاتی جدوجہد کے دوران، جب سے سماجی ترقی کے حالات نے تاریخ کے مادی تصور کی تخلیق کو ممکن بنایا، یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کمیونسٹوں کو ایسے فکری رجحانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو سوشلزم کے نام پرپیٹی بورژوا طبقے (چھوٹی نجی ملکیت والے طبقے) کے نکتہ نظر کو پیش کرتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انقلاب اوراصلاح پسندی ایک دوسرے کا سامنا کررہے ہیں۔

گزشتہ دس سالوں کے دوران لاطینی امریکہ کے متعدد ملکوں میں (وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور،نکاراگوا، یوراگوئے، پیراگوئے، چلی، ارجنٹینا، برازیل اورحال ہی میں ایلسلواڈور، ہونڈورس) ہر ملک میں مختلف سطح اورگہرائی پرہونے والی مثبت تبدیلیوں نے اہم توقعات اوراس کے ساتھ ساتھ مختلف الجھنوں اورتوہمات کو پوری دنیا میں جنم دیا ہے۔ اس نئی صورتحال کی بنیادی خاصیت امریکی سامراج کی مخالفت ہے۔ تاہم، یہ خاصیت سامراج کے تصور کو امریکہ تک محدود کردیتی ہے اورامریکہ کو ایک “سلطنت” کے طورپرمتعین کرتی ہے۔ عالمی سامراجی نظام کےباہمی انحصارکے ڈھانچے میں ہر ملک انحصار کے رشتوں کے جس مسئلے کا سامنا کرتا ہے اس کے بارے میں بھی اس کی سوچ غلط اوریکطرفہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

طبقاتی نکتہِ نظر ،یعنی سرمائے کے مفادات سےنبردآزما ہونے کے لیے طبقاتی جدوجہدکی لازمیت کی کمی اس کی واضح خاصیت ہے۔ بیک وقت، ہم عصر دنیا کے غلط تجزیے اورموقع پرست اثرات کے غلبے کی وجہ سے ، اس نظریے میں سرمایہ دارطبقے کو غلط انداز سےایسا قومی سرمایہ دارسمجھا جاتا ہے جو بین الاقوامی اثرات سے مغلوب ہے۔چنانچہ، سرمایہ دارطبقے کے وہ حصے جو زرائع پیداوارکے مالک ہیں اورمعیشت پرقابض ہیں، وہ عموماً ایسے متحدہ محاذوں میں شرکت کرتے ہیں جن کا مقصد الیکشن جیت کرسرمایہ دارانہ اقتدارکا تختہ الٹنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے مفادات کو فروغ دینا اور سرمائے کے ساتھ تنازعے میں ، خصوصاً امریکی سرمائے کے ساتھ، اپنے لیے زیادہ حصہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ برازیل، ارجنٹینا اورچلی سے لے کر، جو اس خطے میں رہنمایانہ کردار ادا کرنے کے دعویدار ہیں، ایلسلواڈور، ایکواڈور، بولیویا اوروینزویلا تک، جہاں یہ عمل زیادہ ترقی یافتہ ہے، خطے کے تمام ملکوں میں ایسا ہوتا ہے۔ اپنی سرمایہ دارانہ ترقی کی سطح کی مناسبت سےہر ملک کے سرمایہ دارطبقے کا یہ مقصد عوام الناس میں پائے جانے والےبے ساختہ اورخودروسامراج مخالف اورامریکہ مخالف جذبات سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ ان ظالمانہ عوام دشمن پالیسیوں کے نفاذ کے خلاف ردعمل پرمشتمل ہے جنہیں پچھلی دہائیوں میں پورے خطے میں ان سیاسی قوتوں کے ذریعے نافذ کیا گیا جن کے امریکہ اجارہ داریوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے پلیٹ فارم کے شدومد کے ساتھ فروغ کے ذریعے، خصوصا وینزویلا اوربولیویا میں، سوشلسٹ نکتہ نظر کی دھندلی تصویرپیش کی جاتی ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply