• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نوول کرونا وائرس اور پاکستان بمقابلہ دوسری دنیا ۔۔ غیور شاہ ترمذی

نوول کرونا وائرس اور پاکستان بمقابلہ دوسری دنیا ۔۔ غیور شاہ ترمذی

شدید تلخ تو ہیں مگر کچھ اصلی اور زمینی حقائق پر غور کیجیے گا ،تاکہ بات کاآغاز کیا جا سکے-

سڑےتیل میں ڈوبے پٹھورے، سموسے، پکوڑے، پوریاں اور سموسے

سلفر والے تیزاب کے مکس پانی والے گول گپے

ایک ہی پتی سے کئی بار بنی ہوئی چائے

کپڑے دھونے والے اور بال صفا پاؤڈر سے بننے والا دودھ

دھول مٹی والی سڑک پرگلے سڑے پھلوں کی چاٹ
گندے نالے کے پانی سے اگی سبزیاں

نہ صاف ہوئے فلٹریشن پلانٹ کے پانی

کھجلاتے، خارش کرتے اور پسینہ آلود ہاتھوں سے پکی روٹیاں اور کھانے

مرے ہوئے مکھی، مچھر ، کاکروچ اور دوسرے کیڑے، مکوڑوں سمیت بنی ہوئی مٹھائیاں اور برگر، شوارمے

پاؤڈر والے دودھ اور نقلی میوہ جات سے بنی مٹھائیاں اور حلوہ جات  کھا  نےوالی پاکستانی قوم کاعام تو کیا خطرناک وائرس بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اس لئے نوول کرونا وائرس کو پاکستان میں پھیلنے میں شدید ترین مشکل کا سامنا ہے۔ شاید کرونا وائرس چلّا کر کہہ رہا ہو “اوئے کون لوگ او تسی” ۔

پاکستان میں الحمداللہ لوگوں کا دنیا کے ہر جراثیم کے خلاف مدافعتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ غیر ملکی جراثیم یہاں آنے سے ڈرتے ہیں ۔ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ،کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ ہمیں کہیں بھی بھیج دیں لیکن پاکستان نہ بھیجیں۔ کیونکہ انہیں یہاں اپنی موت نظر آتی ہے۔ خطرناک سے بھی خطرناک جراثیم پاکستان آ کر دیکھتے ہیں کہ یہ جگاڑو قوم ہر بیماری کا علاج گرم دودھ اور جلیبیوں میں اور دودھ سوڈے میں ڈھونڈتی ہے اور دودھ بھی خالص صابن سے بنایا ہوا اور جلیبیوں میں وہ رنگ جسے کھا کر پندرہ دن تک زبان لال رہتی ہے بلکہ دانت تک لال ہو جاتے ہیں اورہر آدمی ہنستے ہوئے خون آشام ڈریکولا لگتا ہے۔

غیر ملکی وائرس پر کیسی ہیبت طاری ہوتی ہوگی، کہ تصور سے بھی باہر ہے ،جب یہ وائرس دیکھتے ہیں کہ انہیں مارنے کی ترکیب تقریبا ً ہر پاکستانی کو آتی ہے ۔ہر عامل کے پاس اس مرض کی دوا ہے- ہر مولوی کے پاس اس کا دم درود ہے اور ہر پیر کے پاس تعویز دھاگہ موجود ہے- ہر لاری اڈے اور ریلوے اسٹیشن پر ماہرین موجود ہیں۔

فیس بک تو اس کے ماہرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے ۔ اب توفیس بکی ماہرین ایسی باتوں پر بحث کر رہے ہیں جو ابھی تک صرف خدا کو معلوم تھیں یا وائرس کو ۔ کچھ فیس بکی ماہرین تو ایران سے آئے ہوئے کرونا وائرس کی پشت پر سے قمیض اٹھا کر اس پر زنجیر زنی کے نشان دیکھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں پہلے ہی شک تھا کہ یہ کون سے” کرونا” ہیں – دوسری طرف برادر اسلامی ملک نے عمرہ کے زائرین کو کہا کہ وہ فی الحال اپنے اپنے گھروں میں رہ کر اللہ توبہ کریں اور قضائے عمری پڑھیں اور اگر یہ سلسہ دراز ہوا تو شاید حج کے مناسک بھی اون لائن ہی ادا کرنے پڑیں گے –

چین سے شروع ہونے والے اس وائرس سے وہاں 3 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں جبکہ 80 ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے- اٹلی میں مرنے والوں کی تعداد 34 ہوگئی جبکہ یہاں اب تک کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 1128 ہوچکی ہے ۔ فرانس میں 130 کیس کنفرم ہوگئے جبکہ امریکہ ، آسٹریلیا اور تھائی لینڈ میں بھی کرونا وائرس سے اموات کی تصدیق ہوچکی ہے- برطانیہ میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ۔ کوریا میں 4 ہزار تک متاثرین مل چکے ہیں- ایران میں 1 ہزار کے نزدیک کیس رجسٹرڈ ہوئے اور 54 کی موت ہوگئی – قطر میں بھی ایک آدمی مر چکا ہے- دنیا کے 60 سے زیادہ ملکوں میں کرونا وائرس کے مریض اب تک ہزاروں متاثرین مل چکے ہیں اور آخری خبریں آنے تک پوری دنیا میں 87 ہزار کیس رجسٹرڈ ہوئے مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان میں اب تک 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 5 کیس ہی ملے جن میں سے ایک نیگیٹو ہو کر گھر چلے گئے جبکہ باقی 4 کے ٹیسٹ نتائج ابھی آنا باقی ہیں اور وہ زیر علاج ہیں-

استاد محترم سید زیدی فرماتے ہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کا مقابلہ کرتے لوگوں، اداروں کے بیچ انسانیت کے  پیکر مادام رتھ فاؤ کی یاد آتی ہے کہ جب لوگ کوڑھ کے مریضوں کو چار دیواریوں میں قید کرکے دیوار کے اوپر سے چار دیواری میں کھانے پینے کی چیزیں پھینکتے تھے تب وہ فرشتہ صفت خاتون ان کوڑھیوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی تھی ، زخم صاف کرتی تھی علاج کرتی تھی ۔سلام ہے ان ڈاکٹروں اور ان کے معاون طبی عملے کو اور لیبارٹریوں میں تحقیق کرنے والے علم طب کے سائنسدانوں کوجو اس کرونا وائرس بیماری کو شکست دینے پر کمر بستہ ہیں اور اپنی زندگیاں داو پر لگائے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف ہمارے یہاں کچھ دانشوران اس میں عذاب الہی اور قرب قیامت کی نشانیاں ڈھونڈتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کفار کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ۔ جیسے زلزلے لڑکیوں کے جینز پہننے سے آتے ہیں اور سیلاب لڑکوں کے سر پر ٹوپی نہ پہننے اور ٹائی لگانے سے آتے ہیں ۔ کچھ کا عقیدہ ہے کہ اگر سب پاکستانی مسلمان چاہتے ہیں کہ ملک بیماریوں سے بچے اور ایک صحت مند معاشرہ قائم ہو تو سب کو حکومت کے قائم کردہ لنگروں سے پروٹین اور وٹامن سے بھرپور کھانا کھا کر اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہر طرح کے ملکی و غیر ملکی جراثیموں اور ان کے بھائی بندوں کو شکست دی جا سکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حقیقت یہ ہے کہ نوول کرونا وائرس کے خطرات سے قدرت ہی ہم پر رحم فرمائے وگرنہ ہم نے اپنی ایسی غیر سنجیدگیوں کا مظاہرہ کرتے رہنے میں اقوام عالم کو مات دے رکھی ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply