درگزر ۔۔ مختار پارس

کس قدر سرد مہری تھی تیرے لہجے میں۔ پھر بھی میں نے تمہاری خطاؤں کو معاف کیا۔ جاؤ آج سے میں نے تمہیں آزاد کیا۔ محبت ہو تو معاف کر دینے میں ہی عافیت ہے۔ محبت نہ ہو تو بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے کہ یہاں سب کے سب عاصی ہیں اور دست بستہ ہیں۔ کوئی بھی نہیں جو معافی کا حقدار نہ ہو۔ قانون شکن ہو یا دل شکن، کفِ افسوس کو ملنا اسکا مقدر ہے۔ کوئی بھی ذی روح نہیں جسے اپنی خطاؤں کا کفارہ نہ دینا ہو۔ پہاڑوں کو یہ دکھ ہے کہ وہ بستیوں کے درمیان چلتے پھرتے انسانوں کے بیچ کھڑے ہیں اور وہ اس جرمِ کہن پر ان سے معافی کے خواستگار ہیں۔ دہقان کو یہ دکھ کہ وہ دھرتی کا سینہ چیر کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے اور وہ اس پر شرمندہ ہے۔ ماں کہتی ہے، معاف کرنا بیٹا! میری محبت کم پڑ گئی۔ چڑیاں گھونسلہ گرنے پر شور مچاتی ہیں تو آندھی کو افسوس ہوتا ہے۔ باپ نے بیٹے پر ہاتھ اٹھایا تو اسے افسوس ہوا، بیٹی نے باپ کی طرف امید سے دیکھا تو اسے افسوس ہوا۔ یہ دکھ دینے اور دکھ لینے کا عمل سرشت میں ہے۔ اس سلسلہِ جرم کا ایک ہی حل ہے؛ جا تجھے معاف کیا۔

دنیا میں سب رنگ التباس ہیں۔ حقیقت میں سب صرف ایک ابیہا ہے جو سب رنگوں کی ماں ہے۔ نہ کوئی گنہگار ہے اور نہ کوئی خطاکار؛ سب کو جو سمجھ آتا ہے، وہی کرتے ہیں اور جو نظر آتا ہے، وہی دیکھتے ہیں۔ بصیرت اور بصارت کو قصوروار ٹھہرانا ہرگز مناسب نہیں۔ انسان جب خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے تو اسے نظر نہیں آتا۔ دل سے پھوٹتی ہوئی لہروں پہ بند کون باندھ سکتا ہے۔ قدرت کی طرف سے عطا کردہ ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے کوئی مجرم بن جاتا ہے اور کوئی وقت کا حاکم۔ نہ حاکم کے بس میں کچھ ہے اور نہ مجرم کی یہ مجال کہ وہ جرم کرے۔ کسے خبر کہ حاکم کا جرم زیادہ ہو مگر اس کو عطا کچھ اور ہوا ہو۔عطا کرنے والی ہستی کا یہ طریق ہے تو کیا کسی انسان میں اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی کو معاف نہ کرے؟

قوتِ  اظہار گناہ ہرگز نہیں۔ لذتِ کام و دہن پر بھی قدغن نہیں۔ سر دھننے والے کو بھی کافر نہیں کہتے۔ شاہ خرچ کو بھی یوں بُرا نہیں کہتے۔ خوابِ عشق کے طلبگاروں کو پڑا رہنے دو۔ ناصحوں کو دل بھر کر کچھ کہنے دو۔ کوئی کسی ضرورت میں کچھ بھی کر لے، کن انکھیوں سے دیکھ کر انجان بن جانا ہی بہتر۔ نہ واعظ کو برا کہو کہ وہ اپنے لفظ مستعار لایا ہے۔ نہ محبت کے اسیروں کو سنگسار کرو، بس انہیں معاف کرو اور انہیں زیست کے پُراسرار لمحوں کی ریاضت میں فنا ہونے دو۔ ایک وقت ایسا آتا ہے، جب وہ سب ہو جاتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہو پاتا۔ گریبان اس لیے نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے آ کر پکڑ لے۔ یہ اس لیے چاک ہوتا ہے تاکہ ہم خود اس میں گردن جھکا کر دیکھ سکیں۔ یہ وقت ضرور آتا ہے، اس لیے مت کہو، کسی سے بھی، کچھ بھی مت کہو۔ سب جانتے ہیں کہ ہم خطا کار ہیں۔ پھر کسی دوسرے خطاکار سے الجھنا کیسا؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں کیا اختیار کہ ہم سوال پوچھیں اور جواب بھی اپنی مرضی کا سنیں۔ جو معاف نہیں کرتا وہی گنہگار ہے۔ دنیا ابتداۓ آفرینش سے فطرت کے تقاضوں پر پنپتی ہے۔ فطرت سے انحراف مدار بدل دیتی ہے۔ پھر جس مدار میں معافی ملتی ہے وہ کسی اور کہکشاں میں چلا جاتا ہے۔ کسی کو ‘بلیک ہول’ میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جب سورج اور چاند سب کے سامنے آسمانوں سے نمودار ہوتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں تو پھر تخلیق کے مراحل اور توضیحات پر معافیاں مانگنے کا مطلب کچھ نہیں۔ کسی روز یہ سب خاک، وعدے کے مطابق سرخ آندھیوں کا حصہ بن کر اڑے گی اور یہ سب رنگ و نمود میں لتھڑے فسانے، اسی بلیک ھول میں غرق ہو جائیں گے، جس کے اس پار کی ہم کو خبر نہیں۔ مقصدِ زیست تخلیقِ انسان کو سمجھنے کا اشارہ ہے۔ فلسفہ حیات و ممات میں ایک پیامِ محبت ہے۔ اس کی تعمیر میں نفرت کی گنجائیش نہیں۔ خدا نے جب اس خاک میں روح پھونکی تو اس پھونک میں ایک توقع ڈالی۔ اس توقع کا مطلب تخریب نہیں، تسخیر نہیں۔ ایک نے سجدے سے انکار کیا تو بنی آدم نے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ انسان کا کام محبت میں سر جھکانا ہے۔ محبت کرنا آ گیا تو معافی بھی مل کر رہے گی۔ کوئی کیسا بھی ہو، اسے معاف کرنا ہے۔ کبھی نزدیک کر کے معاف کرنا ہے اور کبھی دور کر کے معاف کرنا ہے۔ دنیا میں دل نہیں لگانا مگر جو دنیا میں دل لگاۓ اسے معاف کرنا ہے۔ یہی وہ سدرۃ المنتہیٰ ہے جہاں رحمت نے طوفان میں گرتے ہوۓ گھونسلوں کا خیال رکھنا ہے۔ یہی وہ مقامِ کبریاء ہے جس نے ان برانگیختہ طوفانوں کوطنابوں سے پکڑ کر ہموار کرنا ہے۔ ہمیں درگزر کر کے اپنی زندگیوں کو زرناب کرنا ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply