ہٹلر کے نقش قدم پر۔۔محمد عامر خاکوانی

ہٹلر کا عروج اور اپنے تمام سیاسی مخالفوں کو ناک آؤٹ کردینا ایک کیس سٹڈی ہے۔
ہٹلر نے جرمن نیشنل ازم کا نعرہ لگایا، جرمنی کو عظیم ترین ملک بنانے کا، اس نے نعرہ لگایا کہ اس کے سیاسی مخالفین کمزور، کرپٹ اور ملک کا نام ڈبونے والے ہیں۔
ہٹلر نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے مخالفیں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنایا۔ لیفٹ کے لوگوں کو سوشلسٹ کہہ کر ہدف بنایا، جیلوں میں بھیجا، کچل دیا۔ ٹریڈیونینسٹوں پر الزام لگایا کہ وہ غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ملکی صنعت تباہ کر رہے ہیں۔

یہودیوں کو کہا کہ یہ دنیا کی حقیر ترین مخلوق ہے۔ جپسی (خانہ بدوشوں)کو چور، گھٹیا اور اخلاقیات سے عاری کہا۔ کچھ لوگوں کو کہا کہ یہ امریکہ اور یورپ کے آلہ کار ہیں اور ملک سے وفادار نہیں۔
ہٹلر نے اپنے کارکنوں اور حامیوں کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا کہ جرمنی میں باقی سب گروہ، تنظیمیں ملک دشمن، غدار ، کرپٹ اور جرمن قوم کو ڈبونے والی ہیں۔ صرف نازی پارٹی اور ہٹلر ہی محب وطن، نیشنلسٹ اور دلیر لیڈر ہے ۔ وہی جرمن قوم کو عظمت کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔

ہٹلر کا سب سے اہم اور خطرناک ہتھیار تب سامنے آیا جب ہٹلر کے جنگجو نظریات اور شدت پسندی کی وجہ سے غیر ملکی قوتیں اس کی مخالف ہوئیں، امریکہ، روس اور دیگر ممالک اسے ناپسند کرنے لگے۔
ہٹلر پر دو قاتلانہ حملے ہوئے، اس کی حکومت ختم کرنے کی سازشیں ہوئیں۔ ہٹلر نے ان تمام سازشوں کا ذمہ دار غیر ملکی قوتوں کو قرار دیا اور کہا کہ یہ مجھے اس لئے ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ جرمنی میں ان کے کٹھ پتلی حکومت بن جائے ۔ یوں ہٹلر نے اپنے ملک میں موجود تمام سیاسی مخالفین کو بھی انڈرپریشر کر دیا کہ وہ اگر ہٹلر کو ہٹانے کی سیاسی جدوجہد بھی کریں تو یہ دوسرے لفظوں میں جرمنی کے خلاف سازش، غداری سمجھی جائے۔

ہٹلرکی ان تمام چالوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ نازی پارٹی ملک میں چھا گئی، تمام سیاسی مخالفین دم توڑ گئے، ایک ایک کر کے مخالف حلقے حکومتی قوت کے آگے کچلتے چلے گئے۔
مارٹن نی موئلر نے اپنی مشہور نظم Than They came for me اسی حوالے سے لکھی۔
اس نظم میں شاعر کہتا ہے کہ پہلے وہ (حکومتی اہلکار)سوشلسٹوں کو کچلنے آئے مگر میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا،
پھر وہ ٹریڈیونینسٹ کو پکڑے آئے میں خاموش رہا کیوںکہ میں ٹریڈ یونین میں نہیں تھا،
پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا
پھر وہ مجھے پکڑے آئے، (میں نے بچائو کے لئے ادھر ادھر دیکھا)مگر تب کوئی بچا ہی نہیں تھا جو میری مدد کے لئے آتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے پڑھنے والو بڑے دکھی دل کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ یہ تمام منظرنامہ آج پھر ہمارے سامنے ہے، وہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہے۔
میں نے کئی برسوں تک عمران خان کی حمایت کی ، اس کے مخالفوں کے خلاف لکھا، اسے فکری مدد پہنچائی، اس لئے کہ میں اسے دوسروں سے بہتر سمجھتا تھا۔ آج بھی دل میں اس کے لئے نرم گوشہ ہے۔

سچ مگر یہ ہے کہ عمران خان بھی ہٹلر کا روپ دھار رہا ہے، اس کے اندر عجیب سا تکبر، شدت اور جنون در آیا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفیں کو ہر حربے سے زیر کرنا بلکہ کچل کر تباہ وبرباد کر دینا چاہتا ہے۔

سیاسی جنگ لڑنا عمران خان کا حق ہے۔ اس کے مخالف اس سے بہتر نہیں، کئی اس سے بدتر ہیں مگر عمران خان بھی فرشتہ نہیں، اس سے بھی غلطیاں بلکہ بلنڈر ہو رہے ہیں۔ سیاست میں آدمی کبھی جنگ ہارتا کبھی جیت جاتا ہے۔

عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دانستہ اس سیاسی جنگ کو، اقتدار کی کشمکش کو معرکہ حق وباطل قرار دے رہا ہے ۔ وہ اپنے تمام سیاسی مخالفین کو غدار،ملک دشمن، غیر محب وطن قرار دے رہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی لڑائی کو ملک وقوم کی جنگ کہہ رہا ہے۔

یہ غلط ہے۔ یہ وہی کام ہے جو ہٹلر نے کیا تھا۔ اس کا انجام پوری جرمن قوم نے بھگتا ۔ عمران خان کا یہ غیر جمہوری ، ہٹلرانہ رویہ بھی ایسا ہے جس کے خلاف پوری قوت سے کھڑا ہونا چاہیے۔ کھل کر بتانا چاہیے کہ آپ غلط کر رہے ہیں۔ آپ بھی ایک سیاستدان ہی ہیں، اقتدار کے خواہاں، آپ اپنی سیاسی لڑائی اپنے میرٹس، ڈی میرٹس پر لڑیں۔ آپ اس میں غداری کارڈ استعمال نہ کریں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، تمام سیاستدان آپ کی طرح ہی محب وطن ہیں۔

آپ کے مخالفوں میں خامیاں ہوسکتی ہیں، وہ کرپٹ ہوسکتے ہیں، وہ نالائق ہوسکتے ہیں، جس طرح آپ کے ساتھیوں میں بہت سے کرپٹ ہیں، جس طرح آپ بطور حکمران پرلے درجے کے نالائق اور نااہل ثابت ہوئے ، کم وبیش اسی طرح کے وہ بھی ہیں۔

جب آپ غداری کارڈ کھیلیں گے، معرکہ حق وباطل قرار دیں گے پھر نقصان یہ ہوگا کہ قومی اسمبلی میں جو انتہائی غلط، فضول اور ناجائز اقدام ڈپٹی سپیکر نے کیا، آپ کے حامی اسے بھی جائز قرار دیں گے۔ وہ موازنہ کریں گے کہ ایک طرف ملک کا سودا ہورہا ہے، دھرتی ماں بک رہی ہے جبکہ دوسری طرف آئین شکنی ہوئی ہے تو یہ جائز ہے۔ ایسے حالات مں سب کچھ جائز ہے۔ یہی وہ خوفناک سوچ ہے جو عمران خان پیدا کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے خلاف کھڑا ہونے، آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

میرے لئے دو بڑی مشکلیں تھیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان پر تنقید سے زرداری صاحب، شریف خاندان، مولانا کو فائدہ ہوگا۔ میں ان تینوں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ ان پر تنقید کرتا رہتا ہوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ جس طرح عمران خان ہٹلر کا روپ دھار رہا ہے، جس طرح وہ ڈرٹی پالیٹکس کھیل کر بھی حق کا چیمپین بنا ہوا ہے، اس طرح تو سب کچھ تباہ وبرباد ہوجائےگا۔ ایک وقت آئے گا جب کوئ نہیں بچے گا، تب میرے جیسے لوگ بھی لپیٹ میں آئیں گے جو اعتدال کے طرفدار ہیں۔

جب عمران خان کے جنونی اور متشدد گروہ ہر طرف راج کریں گے پھر سماج سے ہر قسم کا توازن اور اعتدال رخصت ہوجائے گا۔ تب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں، تب بولنے اور کھڑا ہونا بے کار ہے۔ جو کرنا ہے وہ آج ہی کیا جائے، اس فیصلہ کن لڑائی میں۔

دوسرا خطرہ مجھے یہ تھا کہ تحریک انصاف کے جذباتی، شدت پسند جتھے حملہ آور ہوں گے اور بدمزگی کا باعث بنیں گے۔ کئی ایسے انصافین احباب جن سے برسوں پرانا تعلق ہے، ان سے بھی ممکن ہے کشیدگی پیدا ہوجائے۔ میں دیکھ چکا ہوں کہ معمولی سی تنقید پر ایسے لوگوں نے جن میں پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں، میرے خلاف نامناسب پوسٹیں لگائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوچتا رہا ، سوچتا رہا۔ پھر یہ خیال آیا کہ اگر یوتھیے بریگیڈ کے خوف سے میں دیانت داری سے نہ لکھ پائوں تو میرے اوپر لعنت ہے۔ یہ بھی سوچا کہ آج جب سچ اور حق کے لئے کھڑا ہونے کا وقت ہے تو انجام اور نتائج سے بے پروا ہو کر جسے درست سمجھا جائے ، وہی بات کی جائے۔ اس لئے جو سوچا وہ سب لکھ ڈالا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply