ہائے میری مونچھیں۔۔عارف خٹک

میری پہچان میری لمبی نوکدار مونچھیں ہوا کرتی تھیں۔ بڑا سا منہ، بڑی توند اور مونچھوں پر انگلیاں مارتا ہوا کسی محفل میں جاتا تو باخدا لوگ سمجھتے تھے کہ ننانوے خون کرکے آیا ہے اور سواں کہیں آس پاس ڈھونڈ رہا ہے۔ محفل میں لالہ لالہ کی آوازیں گونج جاتی تھیں۔ ہم نویلی آنکھوں سے حسیناؤں پر ایک عیاشانہ نگاہ ڈال کر  ان کو وہیں ڈھا کر نکل آتے تھے۔ فرنود عالم نے تو ہمارے اس حلیے پر ایجنسی دا بندہ لکھ  کر،ہم پر الزام بھی دھر دیا۔ اس سے کچھ اور نمبر بھی بڑھ گئے۔ اب کسی یار  دوست کو تھانے میں ایس ایچ او سے کوئی ناجائز کام نکلوانا ہو تو کال کرکے خبر دی جاتی ،لالہ بات کرو۔ محلے میں کبھی کبھار لڑکیوں کو چھیڑنے پر گرفتار بچوں کو  بقلم خود تھانہ جاکر ان کو چھڑوا کر بھی آتے تھے۔ ایس ایچ او صاحب ہمارا خلیہ دیکھ کر اُٹھ کر گلے لگ جاتا۔

آج اس حلیے میں بیگم بھی بچوں کو ڈانٹتے ہوئے مجھے بھی ڈانٹ دیتی ہیں۔ کچھ دن پہلے بیٹے کو مارنے کیلئے چپل اٹھائی تو نشانہ ہم بن گئے۔ ہم نے جلالی لہجے میں کہا ،آپ پاگل ہوگئی ہو؟۔ فوراً معذرت کی کہ معلوم نہیں ہوا کہ آپ بھی بیٹھے ہیں۔
پہلے مونچھوں  کیساتھ کسی ٹریفک اہلکار کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کالے شیشوں کے  چلان کیلئے ہماری گاڑی کو روکنے کا اشارہ کریں۔ بلکہ کراچی آپریشن کے دوران ہمارے حلیے نے کتنے رینجرز والوں کو سیلوٹ پر مجبور کیا تھا۔ آج یہ حالت ہوئی ہے کہ ٹریفک والا چھلانگ لگا کر گاڑی کے سامنے آجاتا ہے کہ جلدی سے کاغذات بنا لو ،آپ کی گاڑی کی ہیڈ لائٹ کمزور ہیں، جو کسی ناگہانی حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ سینہ تان کر اندر گئے۔ توقع کررہے تھے کہ لڑکیاں آئیں گی اور لالہ لالہ پکار کر سر پر ہاتھ پھروائیں گی۔۔اور ہم اُن کی لیں گے،وہ ہماری لیں گے۔۔”تصویریں”۔ مگر ڈیڑھ گھنٹہ برباد کرنے کے بعد ہماری قسمت میں قمر نقیب خان، فرنود عالم، ناصر، رضا شاہ جیلانی اور بلاول بھٹو سوری نجیب بھٹو ہی آئے۔
وہاں ایک خاتون کافی دیر سے مجھے گھور رہی تھی۔ رضا نے کہا لالہ آپ کو پہچاننے کی کوشش کررہی ہے۔ سو خود پر قابو نہیں رکھ پایا۔ سیدھا اس خاتون کے پاس جاکر سلام کیا “آپ شاید لالہ عارف خٹک کو ڈھونڈ رہی ہیں؟”۔ اس نے نفی میں سر ہلایا، نہیں تو۔
بشری ٰانصاری کو دیکھنے پنڈال میں جاکر کرسی پر براجمان ہوا کہ چلو کچھ نیا دیکھتے ہیں، کہ انتظامیہ کے لوگ میرے پاس آئے اور بدتمیزی سے مجھے کرسی سے اٹھا کر کہنے لگے۔ یہاں سینئر لوگوں کی سیٹنگ ہے، بے بسی سے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پہلی بار موٹاپے اور مونچھ کے کھو جانے کا افسوس ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جلدی سے گاڑی میں بٹھا اور بیگم کی بات کانوں میں گونجنے لگی۔ “سرتاج اس پچیس روپے کے کوائن جیسے منہ کو میں اپنا شوہر ہی نہ مانوں اور آپ بچے سے خود کو باپ تسلیم کروانے کی ضد کررہے ہیں”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply