نظم۔۔سلمیٰ سیّد

میں اس کو جب بھی چھوتا ہوں
میرے ہاتھوں میں جیسے نور کا ریشم پھسلتا ہے
میں اس کی ریشمی بانہوں میں بانہیں ڈال کے جس راہ چلتا ہوں
وہاں تارے برستے ہیں
میں ان آنکھوں میں جھانکوں تو
نگاہوں سے کوئی پیغام دیتی ہے
وہ مجھ کو کرہ ارض و سماں پر تیرتی اک گیت لگتی ہے
شفق جیسی گلابی سی
مجھے وہ دھوپ لگتی ہے سنہری زعفرانی سی
میں جب عارض پہ بوسہ دوں
بہت مدہم ملائم تتلیوں کے پَر سے رنگین
نقش چہرے پر بکھرتے ہیں
میں اس کے ہونٹ تکتا ہوں
عجب اک لہر اٹھتی ہے
شرارت ناچتی ہے جب نگاہوں میں
مرے پہلو سے ایسے بھاگتی ہے وہ
کہ جیسے جانتی ہے وہ
مجھے میرے ارادوں سے پلٹنا ہی نہیں آتا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply