آرام و سکون۔۔سلمان امین

یہ دونوں الفاظ ہمیشہ ایک ساتھ بولے جاتے ہیں، کیا آرام اور سکون دونوں ایک ساتھ ہوتے  بھی ہیں؟۔۔،نہیں ،ایسا عام طور پر نہیں ہوتا۔ آرام کا تعلق آپ کے ہارڈوئیر یعنی جسم سے ہے اور سکون کا تعلق آپ کے سافٹ وئیر یعنی روح سے ہے ۔ پرانے دور کے انسان کو دیکھا جائے تو اُس کے پاس سکون تھا مگر آرام حاصل کرنے کے لئے آسائشات نہیں تھیں، گرمی ہو تو پنکھا ،اے سی وغیرہ نہیں تھا، کام کرنے کے لئے آلات نہیں تھے ،سارا کام ہاتھوں سے کرنا پڑتا تھا، سفر کرنے کے لئے گاڑیاں نہیں تھیں۔ مگر اُس کے باوجود وہ پرانے دور کا انسان دلی سکون کا حامل تھا۔ اُس کے چہرے پہ اطمینان نظر آتا تھا۔ پرانے دور کا انسان مخلص تھا۔

آج کے انسان کو دیکھا جائے تو اُس کے پاس اپنے وجود کو حالتِ آرام میں رکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ مگر پھر بھی وہ ہر وقت پریشان، دکھی نظر آتا ہے۔ وہ مہنگی سے مہنگی گاڑی میں بیٹھ کے بھی نرم بستر پہ لیٹ کے بھی اک اضطراب میں مبتلا رہتا ہے۔

آج کے انسان کے پاس دلی سکون و اطمینان نہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ،اگر دیکھا جائے تو اس کی وجہ پیسہ ہے، ہر انسان زیادہ سے  زیادہ پیسہ حاصل کرنا چاہتا ہے ،ہر وقت دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اگر کسی کے پاس لاکھوں ہیں تو وہ کروڑوں کے چکر میں ہے، اگر کے پاس کروڑوں ہیں تو وہ اربوں کے چکر میں ہے۔ پیسہ کمانا اچھی بات ہے مگر ہم لوگ دولت کے پیچھے اندھے ہوگئے ہیں، اس کے لئے ہمیں  کسی کی جان لینا پڑتی ہے، تو ہم جان لینے کو تیار ہوتے ہیں، کسی کی حق تلفی کرتے ہوئے ہمیں ذرہ برابر بھی ملال تو دور کی بات ہلکی سی سوچ بھی نہیں آتی۔ اب ذرا  آپ ہی مجھے بتائیں کہ جب ہم کسی کا حق مار کے دولت حاصل کریں گے تو ہمیں کیسے سکون مل سکتا ہے جسم کو آرام دینے کے لئے اُس دولت سے گاڑی بنگلہ تو مل سکتا ہے پر سکون  نہیں۔ میں نے اکثر یہ دیکھا اور سنا ہے کہ بہت  زیادہ دولت مند لوگ سونے کے لئے نیند کی دوائیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

کسی بھی چیز کا ضرورت سے  زیادہ حصول اکثر نقصاندہ ہوتا ہے، مثال کے  طور پر چینی جو کہ  اچھی چیز ہے، اپنے اندر مٹھاس رکھتی ہے، مگر جب آپ اس کو ضرورت سے  زیادہ کسی شے میں ڈال دیں گے تو یہ اُس چیز کو کڑوا کردے گی۔

اس لئے اسلام نے ہمیں جو میانہ روی کا درس دیا ہے اُسی میں ہماری عافیت ہے، اگر آپ اس میانہ روی لفظ کو پھیلا دیں تو یہ سارے معاملاتِ  زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس لئے ہمیں کوئی بھی کام ہے اُس کو ایک حد میں اور حلال کے دائرے میں رہ کر کیا جائے، تو میرا یقین  ہے کہ انسان حالتِ سکون میں رہ سکتا ہے، سکون میں آرام ہے ،مگر آرام میں سکون نہیں۔

ہم سب مسلمانوں کے لئے رسول اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ ایک بہترین  نمونہ ہے، اگر ہم دیکھیں تو آپﷺ کی  زندگی میں آرام کم کم ہی ملتا ہے ہجرتِ مدینہ ہو، شعبِ ابی طالب ہو، کئی کئی روز کے فاقے ہوں اور بہت سے غزوات جن کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اک مشقت طلب کام ہے ۔ آپﷺ سوتے وقت بھی اپنے بستر پہ کوئی نرم چادر نہیں بچھاتے تھے۔ مگر آپﷺ کی  زندگی سکون وقرار سے بھر پور تھی۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ آرام پہ کمپرومائز کرلیں لیکن سکون پہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سکون کا حصول اگر ایک جملے میں بیان کروں کہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر اور اللہ تعالی کے بندوں کے ساتھ ہمدردی۔

Facebook Comments

سلمان امین
اقبال و فیض کا ہمسایہ ہوں،علم و ادب سے شغف ہے۔ باقی ایک طالبعلم کا کیا تعارف ہوسکتاہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply