کینسر (75) ۔ دو قسم کے کینسر جین/وہاراامباکر

جینیات میں جین “دیکھنے” کے دو الگ طریقے ہیں۔ ایک سٹرکچرل۔ جس میں اس کے فزیکل سٹرکچر کو دیکھا جاتا ہے۔ اس میں جین ڈی این اے کے ٹکڑے ہیں جو کروموزوم پر ہیں۔ جبکہ دوسرا فنکشنل۔ جس میں اس کی خاصیتوں کو جانا جاتا ہے۔ (مثلاً، جیسا کہ مینڈیل نے جین کو وراثتی خاصیتوں کے تصور کے طور پر “دیکھا” تھا)۔ اور کینسر جینیات کے ماہر بھی کینسر کا موجب بننے والی جین کو انہی دو الگ پہلووٗں سے دیکھنا شروع ہوئے۔ دونوں انداز سے کینسر کی پیدائش کی میکانکی سمجھ بہتر ہو کر یہ فیلڈ انسانی کینسر کی مالیکیولر سطح پر واقفیت کی سمت بڑھ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کام سٹرکچر اور اناٹومی پر ہوا۔ جینٹ رولے شکاگو کی ہیماٹولوجسٹ تھیں، جنہوں نے انسانی کینسر جین کو فزیکل شکل میں دیکھا۔ ان کی مہارت کروموزوم کو داغدار کر کے اس کا مطالعہ کرنے میں تھی اور ان کا کام آرٹ اور سائنس کو یکجا کرتا تھا۔ نیلے رنگ کی ڈائی کی مدد سے ان کا فوکس جس خون کے کینسر کرونک مائیلوجینس لیوکیمیا (سی ایم ایل) پر تھا۔ میز پر بکھیری ہزاروں تصاویر کی مدد سے وہ اس پیٹرن تک پہنچتی گئیں۔ اس کینسر کے خلیات میں بائیسویں کروموزوم کا “سر” نہیں تھا۔ اور رولے نے پتا لگا لیا کہ یہ سر کروموزوم نمبر نو کے ساتھ لگ گیا تھا۔ اس جینیاتی ایونٹ کو ٹرانس لوکیشن کہا جاتا ہے۔ جس میں کروموزوم کے الگ حصے آپس میں مل جاتے ہیں۔
یہ معلوم ہو جانے کے بعد رولے نے سی ایم ایل کے مریضوں کے جتنے بھی کیس دیکھے، ان سب میں ایسا ہی تھا۔
اس چیز کا تو بہت پہلے سے علم تھا کہ کینسر کے خلیات میں جین نارمل نہیں ہوتے لیکن رولے کے نتائج نے اس سے بہت گہرا نکتہ نکال لیا تھا۔ کینسر کروموزوم کی بدنظمی نہیں ہے۔ یہ کروموزوم میں ہونے والی خاص طرح کی گڑبڑ ہے۔ خاص قسم کے کینسر میں خاص قسم کی میوٹیشن ہی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف ہیوسٹن میں ماہرِ جینیات الفریڈ نڈسن نے جین کو ایک اور پہلو سے دیکھا۔ ان کا فوکس فنکشن پر تھا۔
نڈسن نے جس کینسر کا انتخاب کیا، یہ ایک نایاب قسم تھی جو آنکھ میں ہونے والا ریٹنوبلاسٹوما ہے۔
چھوٹی عمر میں ہونے والا یہ افسوسناک عارضہ ہے جس کا علاج نہ کیا جائے تو ٹیومر آنکھ سے آپٹک نرو تک اور پھر دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا علاج آنکھ نکال دینا یا پھر گاما ریڈی ایشن کی ہائی ڈوز سے کینسر جلا دینا ہے۔
یہ دو اقسام کا ہے۔ یا تو وراثتی ہے جو خاندانوں میں پایا جاتا ہے۔ یا پھر کبھی کسی کو ہو جانے والا جو کبھی کبھار ہو سکتا ہے۔
نڈسن نے ان دونوں اقسام کے کیسز کے ہسپتالوں سے پرانے ریکارڈ لئے۔ دو گروپ بنا کر ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور معلوم ہوا کہ ان دونوں میں کینسر کے رویے میں فرق ہیں۔ وراثتی کینسر دو سے چھ ماہ کی عمر میں ہو جاتا تھا جبکہ غیروراثتی دو سے چار سال کے درمیان ہوتا تھا۔
لیکن ان دونوں میں یہ بیماری الگ رفتار کیوں رکھتی تھی؟ نڈسن نے فزکس سے مدد حاصل کی اور اعداد اور مساوات اور پرابیبلٹی تھیوری کی مدد سے کینسر کی ڈویلپمنٹ کو ماڈل کیا۔ وراثتی کینسر کی صورت میں کینسر کے لئے ایک جینیاتی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ جبکہ غیروراثتی کی صورت میں دو کی۔
اس سے ایک سوال کھڑا ہو گیا۔ ایسا کیوں؟ نڈسن نے اس کی سادہ اور خوبصورت وضاحت پیش کی۔ ہر نارمل خلیے میں ریٹینوبلاسٹوما کی جین کی دو کاپیاں ہوں گی۔ غیروراثتی کیس میں ان دونوں میں میوٹیشن کی ضرورت ہے۔ اس لئے یہ عمر میں دیر بعد ہوتا ہے کیونکہ ایک ہی خلیے میں دو الگ میوٹیشن کو آزادانہ ہونا ہے۔
وراثتی بیماری کی صورت میں بچوں میں ایک ناقص کاپی پہلے سے ہی ہوتی ہے۔ اور صرف ایک جینیاتی میوٹیشن کی ضرورت ہے۔ اس لئے یہ ان میں جلد ہوتا ہے اور ٹیومر تیز ہوتے ہیں۔ نڈسن نے اسے ٹو ہِٹ ہائپوتھسس کہا۔
ٹو ہِٹ تھیوری وراثتی پیٹرن کی بہترین وضاحت کرتی تھی لیکن ایک سوال پیدا ہوتا تھا۔ سارک جین کو بے قابو خلیاتی تقسیم کے لئے ایک کاپی درکار تھی جبکہ نڈسن کی جین کو دو۔ ایسا کیوں؟
اس کا جواب دونوں جین کے فنکشن میں تھا۔ سارک خلیاتی تقسیم کے فنکشن کو فعال کرتی تھی۔ اس کی میوٹیشن ایسی پروٹین بناتی تھی جو اس فنکشن کو مستقل آن کر دیتی تھی۔ جبکہ نڈسن کی جین اس کا الٹ فنکشن کرتی تھی۔ یہ خلیاتی تقسیم روکتی تھی اور جب یہ غیرفعال ہو (دو ہٹ کی مدد سے) تو پھر خلیاتی تقسیم بے قابو ہوتی تھی۔ یعنی کہ اس کا فنکشن سارک سے برعکس تھا۔ نڈسن نے اس کو اینٹی اونکوجین کہا۔
نڈسن نے لکھا، “دو اقسام کی جین بچوں میں کینسر کی شروعات کے لئے اہم ہیں۔ اونکوجین جو کسی ایکٹویٹی کو نارمل سطح سے زیادہ کر دیں۔ جبکہ دوسری اینٹی اونکوجین جو اونکوجینیسس کو دبا دیتی ہیں۔ کینسر اس وقت ہوتا ہے جب یہ دونوں اقسام کی جین میوٹیٹ ہو جائیں یا موجود نہ رہیں۔
جو لوگ وراثت میں ان میں سے ایک میوٹیشن رکھیں، ان میں ٹیومر ہو جانے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ ایک ہی ایونٹ ایسا کر دے گا”۔
اور شماریاتی ریزننگ سے نڈسن ایک طاقتور تھیوری تک پہنچ گئے تھے۔ انہیں اینٹی اونکوجین کی مالیکیولر شناخت کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی کینسر کے خلیے میں یہ جین “دیکھی” نہیں تھیں۔ بائیولوجیکل تجربہ نہیں کیا تھا۔ مینڈیل کی طرح ہی جین کے بارے میں ان کا علم شماریاتی تھا۔ جیسا کہ انہوں نے کہا، “یہ ویسا تھا جیسے پتوں کی حرکت دیکھ کر ہوا کا پتا لگا لیا جائے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارمس، بشپ اور نڈسن اب کینسر کے خیلے کی مالیکیولر خرابی تک پہنچ سکتے تھے۔ نڈسن نے تجویز کیا کہ کینسر جین دو اقسام کی ہیں۔ مثبت جین (جیسا کہ سارک) جو فعال جین کی تبدیل شدہ صورت ہیں۔ نارمل صورت میں یہ خلیاتی تقسیم کی رفتار تیز کرتی ہے لیکن اس کا کنٹرول گروتھ سگنل سے ہوتا ہے۔ جبکہ اپنی خراب صورت میں یہ کنٹرول نہیں ہوتیں۔ یہ ویسے ہے جیسے گاڑی کا ایکسلریٹر پھنس جائے۔ ایسا خلیہ بے قابو ہو کر تقسیم اور پھر تقسیم ہونے لگے گا۔
منفی جین (جیسا کہ ریٹینوبلاسٹوما) خلیاتی تقسیم روکتی ہیں۔ یہ اینٹی اونکوجین ویسا کام کرتے ہیں جیسا گاڑی کی بریک۔ جب ان کو سگنل ملتا ہے تو یہ خلیاتی تقسیم کے تمام فنکشن بند کر دیتے ہیں۔ جب یہ خراب ہو جائیں تو پھر رک جانے کا سگنل خلیے تک نہیں پہنچتا۔ بریک فیل ہونے کی وجہ سے خلیات تقسیم در تقسیم کے سائیکل میں پھنس جاتے ہیں۔
یہ دونوں خرابیاں، فعال پروٹواونکوجین اور غیرفعال اینٹی اونکوجین، کینسر کے خلیے کے مرکزی خلیاتی نقائص ہیں۔ نڈسن، وارمس یا بشک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کتنے نقائص درکار ہوں گے کہ انسانی کینسر بن سکے لیکن کینسر کی بنیادی بایئولوجی سمجھنے کی طرف یہ اہم قدم تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply