تکون کی چوتھی جہت(گرد کا طوفان)۔۔۔تبصرہ:محسن علی

سال کی پہلی کتاب اقبال خورشید کی پڑھی ،جس میں دو ناولٹ ہیں ۔
اس میں لکھاری نے ہمیں بچپن میں پڑھی کسی کہانی کی طرز پر ۔ ۔ جس میں ہر فرد اپنی کہانی سُنا رہا ہوتا ہے ،وہ طریقہ واردات کہانی کو بیان کرنے کے لئے اپنایا ہے ،یا پھر شاید ہم لوگ جس طرح اپنی اپنی انفرادی کہانی سُنا کر ہلکا یا بہتر محسوس کرتے ہیں ۔،ایسے ہی اقبال نے کرداروں کو تخلیق کیا ہے ،تکون کی چوتھی جہت جو کُھل کر سامنے آتی ہے وہ میرے نزدیک ہماری موت زندگی اور پیچیدہ مسائل کے درمیان ایک نئی اُمید کو چوتھی جہت کا نام دیا گیا ہے ،ساتھ تکون کی چوتھی جہت پر انہوں نے کرداروں کو سرد موت دی ہے،الفاظ آنکھیں نم کردیتے  ہیں، اور یہ لکھاری کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“گرد کا طوفان”
یہ شہر کے اندر متوسط و غیر متوسط طبقات اور سماج کے اندر سیاسی طوفانوں کے بیچ پلنے والے کردار ہیں ،جو کہیں لگتا ہے ،لکھنے والے کا کو ربط ہو ان میں سے کسی ایک سے یا خبروں کی سُرخیوں نے لکھاری کا ان سے تعلق بنادیا ہو ۔ لکھاری نے جیاں اوزی و وکی کا کردار کسی ہندی سینما  کی فلم سا چلایا ہے ،وہاں دوسری جانب انجینئر و بڈھے کا کردار کراچی کی فضاء سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے، منظر کشی کرتے ہوئے چائے کا ہوٹل  بار بار سامنے آنا  کہانی کو حقیقت کے قریب کرتا ہے۔  ۔مگر گرد کے طوفان میں جس طرح لکھاری نے موت دکھائی ہے ، ، یہ کراچی کا سچ اپنی جگہ ہے ۔
مگر دونوں ناول پڑھ کر احساس ہوتا ہے، لکھاری اپنے زمانے سے ا ور  مزاج سے واقف ہے ،اور اپنے گرد وجود کا اعتراف رکھتا ہے ۔

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply