کرونا وائرس سے صرف بیوقوف مریں گے۔۔رمشا تبسم

یوں تو مرنا ہو تو انسان حلق میں پانی پھنس جانے یا نوالہ خوراک کی نالی میں غلط طریقے سے جانے سے بھی مر سکتا ہے۔ہاتھ میں معمولی جھاڑو کا تنکا لگ کر زخم خراب ہونے سے ہاتھ کٹتے دیکھے ہیں۔موت آئی ہو تو گھر میں بیٹھے سر پر لگا پنکھا گرنے سے بھی انسان مر سکتا ہے۔اور نہ آئی ہو تو زلزلے میں گری عمارتوں کے ملبے سے سات دن بعد بھی صحیح سلامت انسان نکل آتے ہیں۔واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں
جب تک زندگی ہو موت خود اسکی حفاظت کرتی ہے”

تو جب زندگی کی محافظ خود موت ہے تو موت سے بھلا کیا خوف؟۔اور موت ایک اٹل حقیقت ہے اس کا وقت آ جائے تو پھر ٹلتا نہیں۔۔ تو موت کا اتنا خوف کیوں کہ زندگی کی بہاریں ضائع کر دی جائیں۔سکون کے لمحات کو بے سکونی سے بھر لیا جائے۔مثبت سوچ کی بجائے منفی سوچ کے کانٹے وجود میں چبھو دیئے جائیں ۔معمولی تدبیر کی بجائے غیر معمولی تدابیر کی طرف بے چین سفر کرنا شروع کر دیا جائے۔  یہ سفر خواہ ہماری معمولی زندگی کو کتنا ہی عجیب اور تکلیف دہ کیوں نہ کر دے مگر صرف منفی سوچ کی وجہ سے اس سفر سے واپس پلٹناپھر ممکن نہیں رہتا۔اور یہ سفر خوف کا سفر ہوتا ہے۔موت کے خوف کا۔۔۔

ہم بے شمار خطرناک بیماریوں کے دور میں جیتے آئے ہیں اور جی رہے ہیں۔کچھ بیماریوں کا نتیجہ صرف اور صرف موت ہے۔انکا علاج درد کی شدت کو کم کر سکتا ہے مگر ہم جانتے ہیں موت قریب ہوتی ہے اور اکثر درد کی شدت میں کمی بھی نہیں ہوتی اور انسان سسک سسک کر مر جاتا ہے۔پھر ایسے میں ایک کرونا وائرس کو اتنا جان کا عذاب بنا لینا کہ  جیسے بس یہ اس صدی کا وہ آخری وائرس ہے جو سب کچھ فنا کر دے گا۔اور قیامت صور پھونکنے سے نہیں بلکہ اس وائرس کی وجہ سے نازل ہونے والی ہے۔اور یاجوج ماجوج نہیں بلکہ کرونا وائرس ہی دیوار چین سے نکل کر ہم کو نگل جائیں گے۔
میرے مرحوم والد صاحب ایک بات اکثر کہا کرتے تھے
“بچے جب تک بے وقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکا نہیں مرتا”
اور اب اس بات کی تصدیق آئے روز کسی نہ کسی صورت ہوتی رہتی ہے۔کرونا وائرس بھی عقلمندوں کا پیشہ اور بےوقوفوں کی موت ہے۔عقلمند اپنے کاروبار چمکانے میں مگن ہیں۔امریکہ ایک عرصے سے چائنہ کو کسی طرح برباد کرنا چاہتا تھا اور امریکہ کی معیشت میں چائنہ کی موجودگی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔لہذا کرونا پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خوف و ہراس پیدا کرنے والا ملک بھی امریکہ ہی تھا۔اس نے کرونا کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جیسے کوئی کرونا وائرس کا شکار شخص آپ کو دور سے دیکھ ہی لے تو آپ زمین بوس ہو جائیں گے۔کرونا کیونکہ اب ہمارے ہمسائے ممالک میں بھی پھیل چکا ہے لہذا کوئی شک نہیں کہ  عنقریب ہمارے ملک میں بھی شان و شوکت سے ہر طرف پھیلتا نظر آئے گا۔شان و شوکت سے اس لئے کیونکہ عقلمند اس وائرس کو اتنا پھیلائیں  گے ،اتنی تشہیر کریں گے کہ  بے وقوف خود کو بچانے کی خاطر کھلی فضا میں سانس لینا بند کر دیں گے ،گوکہ اس سے وہ مر جائیں ،منظور ہے مگر کرونا سے نہیں۔۔کرونا وائرس چاہے کسی کی موت کی وجہ بنے یا نہ مگر اسکا خوف لوگوں کو پل پل مارنے کے لئے کافی ہے۔

ہر طرف پاکستان میں ماسک مہنگے ہونے  کی صدا بلند ہو رہی ہے۔عقلمندوں نے ایک طرف میڈیا کے ذریعے ہر طرف خوف کی فضا قائم کر دی ہے تو دوسری طرف اس سے بچاؤ  کے مختلف طریقے بھی سامنے لائے جا رہے ہیں اور انہی طریقوں اور چیزوں کو مہنگا کر کے الگ اودھم مچا دیا گیا ہے۔ہم ماشا اللہ مسلمان ہیں۔کسی جگہ کوئی اسلام قبول کرے ہم وااہ وااہ کرتے نظر آتے ہیں۔دوسرے ملک میں کوئی مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو تو ہم چیختے نظر آتے ہیں۔مگر اُس وقت ہماری انسانیت پردہ کر کے دور کہیں زیرِ زمین چلے کاٹنے چلی جاتی ہے جب ہم اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کو دن رات گدھ بن کر نوچتے ہیں۔ملاوٹ شدہ ادویات بناتے ہیں۔اشیائے خوردو نوش کو گندے اور زہر آلود طریقے سے بناتے اور ان کا مصنوعی بحران پیدا کرتے ہیں۔بڑے اور مہنگے ہوٹلوں میں حرام کھانے بناتے ہیں۔مسجدوں ,ہوسٹلوں,ہسپتالوں کالجوں گھروں میں عزتیں پامال کرتے ہیں۔جائیداد کی غرض سے خونی رشتوں کا قتل کرتے ہیں۔اور بہت سے ایسے معاملات جن پر ہم اپنے ہی ہم وطنوں کی بوٹی بوٹی نوچ  ڈالتے  ہیں، آئے دن ہماری آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں۔

ایسے میں ایک معمولی کرونا وائرس کو اتنا غیر معمولی بنا کر عام آدمی کو خوفزدہ کر کے عقلمند اپنے کاروبار چمکانے میں مصروف ہیں۔پہلے یہ آپ کو اس سے بچنے کے فضول طریقے اور چیزیں بتائیں گے۔پھر انہی چیزوں کو آپ کی پہنچ سے دور کرتے ہوئے ان کا بحران پیدا کریں گے اور پھر سو گنا منافع کماتے نظر آئیں گے۔

آپ کو کیا لگتا ہے سنار کے گھر کی عورتیں ہر وقت سونے سے بھری ہوتی ہیں؟کپڑے بیچنے والے کی عورتیں ہر نیا مال پہلے خود حاصل کرتی ہیں اور جتنے دکان میں کپڑے ہوتے ہیں اتنے ہی برابر ان کے گھر کی عورتوں کے ہوتے ہیں؟برتن بیچنے والوں کے کچن ہزاروں برتنوں سے بھرے ہوتے ہیں؟گوشت بیچنے والوں کے گھر روز گوشت پکتا ہے؟ جی نہیں۔ ایسے ہی کرونا کو خوف ناک  بنا کر پیش کرنے والے خود اس خوف سے بالکل آزاد ہیں۔۔

اسی طرح ماسک ماسک کا رونا رونے والے اور صرف ماسک کو بچاؤ کا ذریعہ بتانے والوں نے یہ ایک شوشہ چھوڑا اور عوام پاگلوں کی طرح ماسک ماسک کرتی یہاں وہاں دھکے کھاتی نظر آ رہی ہے۔پھر ٹشو پیپر سے ماسک بنانے کا طریقہ سامنے آ گیا۔آپ یہ مت بھولئے عوام کو جس چیز پر لگایا جائے گا اس چیز کو پھر عوام کی پہنچ سے دور بھی کردیا جائے گا۔۔ عنقریب ٹشو پیپر بھی آپ کی پہنچ سے دور ہو جائیں گے۔پھر کوئی عقلمند خاص قسم کا کپڑا لے کر سامنے آئے گا جو اس وائرس کو روک لے گا اور ہم بے وقوف اسکی آمدن میں اضافہ کرنے کی غرض سے اسکی طرف متوجہ ہونگے اور وہ غیر معمولی منافع کماتا جائے گا۔پھر مختلف آن لائن ہربل ,ہومیو پیتھک,انٹرنیشنل ادویات ,ماسک, لباس, کھانے اور دیسی ٹوٹکے سامنے آئیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ حاضر ہونگے مختلف اور ماہر حکیم, خاص ڈاکٹرز , عامل بابا جو راتوں  رات اس مرض سے آپ کو آزاد کر دیں گے۔اور کوئی بعید نہیں کہ  اس وائرس کو اتنا حواسوں  پر سوار کیا گیا ہے کہ  اس سے نجات پانے کو ہماری خواتین عامل بابا کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنواتی نظر آئیں گی۔کوئی خاص عامل بابا کے بنائے چھپڑ اور تالاب پر رات کو غسل کرے  گی, تو کوئی ان کے ہجرے میں قیام پذیر ہو گی ،بالکل ویسے ہی جیسے آج تک انہی عاملوں کے ذریعے اولاد ِ نرینہ اور محبوب کو قدموں میں لاتی رہی ہیں ۔کرونا نے اتنا نقصان انسانی جانوں کو نہیں پہنچانا جتنا عقلمندوں کے ہاتھوں انسانی ذہنوں کو پہنچے گا۔یہ بات بھی یاد رکھیں کہ  ماسک کو غائب کرنے والوں کے گھر والے خود ماسک جیسی خرافات کو استعمال نہیں کر رہے ہوں گے۔

کیا یہ کوئی پہلی انوکھی بیماری ہے؟ذرا پڑھیے معلومات حاصل کریں، پاکستان کے صوبوں میں دیہاتوں میں کئی  پُر اسرار بیماریاں موجود ہیں۔ہمارے ہی ملک میں ایسا گاؤں بھی ہے جہاں پیدا ہونے کے بعد تیرہ سال کی عمر میں ہر شخص  بینائی کھو دیتا ہے۔ایسی بیماری بھی ہے کہ  پیدا ہونے کے بعد سات سال کی عمر میں وہ معذور ہو جاتے ہیں۔ایسی بیماری بھی ہے کہ  پیدا ہوتے لوگوں کے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں نہیں ہوتیں ،تو کبھی اپنے ملک کے کسی صوبے میں موجود پُراسرار بیماری سے جب خوف محسوس نہیں ہوتا،تو اس وائرس کا اتنا خوف کیوں؟

کیا آپ کو اسلام صفائی اور پاکی کا درس نہیں دیتا؟کیا آپ کو پیدا ہونے کے بعد بچپن میں یہ نہیں   سیکھایا جاتا کہ  کچھ بھی کھانے پینے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوئیں؟کیا آپ صاف برتنوں میں نہیں کھاتے؟کیا آپ صاف لباس نہیں پہنتے ؟کیا کھانستے ہوئے یا چھینکتے وقت آپ کو منہ پر کپڑا رکھنے کو نہیں کہا گیا؟جب کوئی کھانسے یا چھینکے تو اپنا منہ ڈھانپنے کی تلقین نہیں کی گئی ؟کیا کسی کا جوٹھا کھانے سے منع نہیں کیا گیا؟کیا گندے رومال کو دھونے اور خراب رومال یا ٹشو پیپر کو اچھے سے کوڑے دان میں پھینکنے کو نہیں کہا جاتا؟ باہر سے گھر واپس آتے ہی کپڑے بدلنے کی عادت نہیں؟ یہ وہ معمولی باتیں ہیں جو ہمیں دو تین سال کی عمر سے سکھانا شروع کی جاتی ہیں اور جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو   بہترین طریقے سے  اپنا خیال رکھنا شروع کرتے ہیں اور ان باتوں پر عمل  کرتے ہیں۔یہی وہ چند معمولی تدابیر ہیں جو آپ کو کرونا وائرس کے لئے بھی کرنی ہیں تو پھر ہنگامہ کیوں برپا ہے؟کیوں عوام عقلمندوں کے ہاتھوں بے وقوف بننے کو تیار بیٹھی ہے؟

کیا آپ کو کبھی پہلے نزلہ زکام,بخار,نمونیہ نہیں ہوا؟کیا نمونیے سے لوگ نہیں مرتے؟ کیا آپ کے گھر میں آج سے پہلے کوئی موت واقع نہیں ہوئی؟اس وقت اس موٹ کو ٹالنے کی ہمت تھی؟نہیں۔ تو اب کیوں موت سے جیتنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیتنا ہے تو اپنے خوف سے جیتیں۔جیتنا ہے تو اپنی بے وقوفی سے جیتیں۔جیتنا ہے تو عقلمندوں کو ہرانا سیکھیں۔بیماری کا علاج احتیاط ہے۔احتیاط کیجیے۔ ۔یقین جانیے احتیاط بالکل مفت ہے،اور    سب کی پہنچ میں بھی ہے ،اسی لئے یہ برانڈڈ قوم اس کو کرنے کی بجائے مہنگے طریقے ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔

کیا آپ کے گھر میں رومال نہیں؟کیا آپ کے گھروں میں کپڑا ختم ہو گیا ہے؟ایک معمولی ماسک یا ٹشو پیپر سے زیادہ حفاظت آپ کی جیب میں پڑا رومال آپ کی کرسکتا ہے۔صاف ستھرائی کے اصول آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جو آپ کو بچپن میں ہی سکھا دیئے گئے تھے۔
تو پھر کرونا کو حواسوں پر سوار کیوں کرنا؟

Advertisements
julia rana solicitors

سوچیے! سمجھیے ! ہم بےوقوف بن رہے ہیں ایک عقلمند مافیا کے ہاتھوں ۔۔ اور یقین جانئے ہمارا بےجا خوف ہماری بے وقوفی کی وجہ سے ہماری موت کا باعث بنے گا ،نا کہ  کرونا وائرس۔۔
آئیے! کرونا کو ہرانے سے پہلے اپنے دل کے خوف کو ہرائیں۔بیماری سے لڑنے سے پہلے اس مافیا سے لڑ کر دکھائیں۔اور موت سے جیتنے کی بجائے زندگی کو جی کر دکھائیں۔آپ با ہمت ہیں تو قوت مدافعت مضبوط ہے۔آپ مضبوط ہیں۔وگرنہ موت کی وجہ تو   مچھر بھی بن سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply