ترکی سے ہمارے تعلقات اور اسکی بنیادیں…

کہا جاتا ہے… “مشکل گھڑی میں کام آنے والا دوست سگے بھائیوں سے زیادہ محبوب ہوتا ہے”… اردگان جس طرح پاکستان کو عزیز رکھتا ہے… اس پر یہ بات بالکل صادق آتی ہے… اردگان کی پاکستان سے محبت دراصل اس احسان کا بدلہ ہے… جو برصغیر کے عوام نے اپنے سخت ترین وقت میں ترکی پر کیا تھا…

جنگ عظیم اول، 28جولائ 1914 کو شروع ہوئی… 11 نومبر 1918 کو اختتام پذیر ہوئی… اس جنگ میں خلافت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا… جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے ترکی پر حملہ کرکے اس عظیم الشان خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کر دیا… اس خلافت کو بچانے کے لیے اس وقت کے غلام ہندوستان نے بہت قربانیاں دی تھیں… جن کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے…

( 1)=اس جنگ میں ہندوستان نے برطانیہ کا ساتھ دیا اس شرط پر کہ جنگ میں جیت کی صورت میں مقدس مقامات کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی… اور خلافت عثمانیہ کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا…
(2)=برطانوی حکومت کی طرف سے وعدہ خلافی ہوئی… جس کے نتیجے میں علماء کا ایک وفد برطانیہ گیا اور برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کی اور وعدہ یاد دلایا…
(3)=١٩١٩ میں تحریک خلافت چلائی گئی… جو مولانا محمود الحسن، مولانا جوہر علی، مولانا عبید اللہ سندھی کی سربراہی میں شروع ہوئی…
(4)=تحریک خلافت کو مضبوط کرنے کے لیے ان علماء نے ہندوؤں کو ساتھ ملانے کے لئے ایک دوسری تحریک چلائی… جسکو تحریک موالات کے نام سے جانا جاتا ہے… گاندھی جی کو اسکا راہنما مقرر کیا گیا تھا…
(5)=مصطفی کمال کے ساتھ علماء ھند کی خط و کتابت اور خلافت کے دفاع کی تلقین اور اس کی جانب سے مایوس کن جواب…
خلافت کو بچانے کے لیے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ھندوستان نے اپنی پوری کوشش کی… بالآخر 1924 کو مصطفی کمال نے خلافت کا خاتمہ کر کے صدارت کا اعلان کر دیا…
علامہ اقبال نے اس موقعے پر حسرت وافسوس کے ساتھ فرمایا تھا…

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری دیکھ

1918میں جنگ عظیم ختم ہوئی… اور خلافت کا مکمل سقوط 1924 میں ہوا…چھ سال کے اس عرصے میں اگر ہم ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1857سے 1947تک سو سالہ غلامی کا دور ہمیں نظر آتا ہے… جنگ عظیم کے دوران لڑنے کے لیے سپاہیوں کی ضرورت ایک ایسا پتہ تھا جسکو علماء ھند نے استعمال کیا ورنہ غلامی کے اس برے دور میں انکے پاس کچھ نہ تھا… عربی محاورہ ” ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے” کے مصداق ترک عوام کی نوجوان نسل نے ایک نئے نظام کو قبول تو کر لیا تھا… لیکن جلد ہی انکو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا… لیکن اب دیر ہوچکی تھی… ترک عوام کو ہندوستانی عوام کی اپنے لیے دی جانے والی قربانیوں کا احساس ہونے لگا…

ترکی کے عوامی حکومتوں نے انہیں قربانیوں کے سبب پاکستان کو دوست کی نظروں سے دیکھا… 65 کی جنگ میں ترکی نے پاکستان کی مدد اسی احسان کا نتیجہ تھی… جسکے بعد وزیراعظم سواط کا تختہ صرف تین ماہ بعد الٹ دیا گیا…

Advertisements
julia rana solicitors

اب اردگان ترکی کی نشاۃ ثانیہ کی علامت سمجھا جاتا ہے… اسنے پاکستان کو دوستی کے لیے صرف اسی پرانے تعلق کی بنیاد پہ چنا… ورنہ ہمارا کوئی جغرافیائی سرحد یا کوئی مفاد مشترک نہیں… پاکستان میں اپنی تقریر میں عبدالرحمن پشاوری کا تذکرہ اور اسکی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کے لیے دی گئی قربانی کا تذکرہ اسی سلسلے کی کڑی ہے… اردگان پاکستان تشریف لائے ہیں..تو ہمیں ان بنیادوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جن پر ہماری یہ دوستی استواء ہے…
ان سے بے اعتنائی نا انصافی ہوگی…

Facebook Comments

ثناءاللہ
چترال، خیبر پختون خواہ سے تعلق ہے... پڑھنے اور لکھنے کا شوق ہے... کچھ نیا سیکھنے کی جستجو...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply