• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسولین ۔ بائیوٹیکنالوجی، میدانِ عمل میں ۔ جین (16) ۔۔وہاراامباکر

انسولین ۔ بائیوٹیکنالوجی، میدانِ عمل میں ۔ جین (16) ۔۔وہاراامباکر

برلن میں 1869 میں لبلبے کو خورد بین تلے دیکھتے ہوئے ایک میڈیکل سٹوڈنٹ نے ایک منفرد لگنے والے خلیے دریافت کئے تھے۔ یہ دریافت بعد میں ہوا کہ یہ کرتے کیا ہیں۔ یہ خون میں شوگر کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔ ان میں خرابی ذیابیطس کا باعث بنتی ہے۔ شوگر کو کنٹرول ایک ہارمون کرتی ہے، ایک پروٹین جو یہ خلیے پیدا کرتے ہیں۔ اس پروٹین کو پہلے آئیلٹین اور پھر انسولین کہا گیا۔

اس کی شناخت کے بعد اس کو حاصل کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ 1921 میں پہلی بار بینٹنگ اور بیسٹ نے گائے کے درجنوں کلوگرام لبلبے سے چند مائیکروگرام انسولین حاصل کی۔ ذیابیطس والے بچوں پر تجربے سے اس ہارمون نے بلڈ شوگر لیول جلد بحال کر دیا اور ان کی پیاس روک دی۔ لیکن اس ہارمون کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل تھا۔ حل نہیں ہوتی تھی۔ حرارت سے خراب ہو جاتی تھی، غیرمستحکم اور پرسرار سی۔ 1953 میں یہ معلوم ہوا کہ یہ کن امینو ایسڈ سے بنتی ہے۔ فریڈ سینگر نے دریافت کیا کہ یہ دو زنجیروں سے بنی ہے۔ ایک لمبی، دوسری چھوٹی۔ ان کے درمیان کیمیکل بانڈ ہیں اور یہ یو کی شکل کی ہے۔ ایسے جیسے انگلی اور ساتھ انگوٹھا ہو۔ ایک پروٹین جو ناب اور ڈائل گھما کر شوگر کا میٹابولزم ریگولیٹ کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوئیر جینیاتی ایڈٹنگ کے تجربے میں کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک جینیاتی انجینرنگ کے لئے 1976 میں جینن ٹیک نام سے کمپنی بنا لی۔ وہ اس مالیکول کو تیار کرنا چاہتے تھے۔ ان کو یہ تو معلوم نہیں تھا کہ انسانوں میں کونسی جین اس کو تیار کرتی ہے۔ انہوں نے اس کو ڈی کوڈ کرنے کا طریقہ امینو ایسڈ اور ڈی این اے کی میپنگ سے نکالا۔ اس سے ڈی این اے کا کوڈ نکالا جا سکتا تھا، اس کو بیکٹیریا کی جینز میں داخل کیا جا سکتا تھا اور ان بیکٹیریا کو انسولین کی فیکٹری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اگر ایسا ممکن ہو جاتا تو وہ کلینکل میڈیسن کا سب سے زیادہ مانگ والی مالیکیول بیکٹیریا کے ذریعے تیار کر لیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسولین پیچیدہ مالیکیول تھا۔ اس ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنے سے پہلے کوئی اور پہاڑ سر کرنا تھا۔ ایک زنجیر 31 امینو ایسڈ سے بنتی تھی، دوسری 20 سے۔ اس سے پہلے سوماٹوسٹیٹن کا انتخاب کیا گیا، ایک اور پروٹین جو سادہ تھی اور 14 امینو ایسڈ پر مشتمل تھی۔ اگر یہ بنا لی جاتی تو معلوم ہو جاتا کہ اس طریقے سے انسولین بنانا ممکن ہے۔

بائیوٹیکنالوجی کی پہلی کمپنی جینن ٹیک ایک کمرے میں چار لوگوں کی ایک ٹیم تھی۔ یہ جون 1977 تک سوماٹوسٹیٹن بنانے کے لئے جین کے حصے اکٹھے کر چکی تھی، اس کو کامیابی سے بیکٹیریا کے پلازمڈ میں ڈال دیا گیا تھا۔ تبدیل شدہ بیکٹیریا پل بڑھ رہے تھے۔ ٹیم صبح لیبارٹری میں اکٹھی ہوئی۔ ڈیٹکٹر میں دیکھا کہ سوماٹوسین پیدا ہونے لگی ہے یا نہیں۔ بالکل خاموشی۔ سوماٹوسٹیٹن کی مقدار صفر تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ مائیکروب انسانی غلام بننے کے خلاف ایک آخری مزاحمت کر رہے تھے۔ یہ تجربہ ناکام ہو گیا تھا۔ اندازہ لگایا گیا کہ اس پروٹین کو بیکٹیریا باہر نکلنے سے پہلے ہی توڑ دیتے ہیں۔

اب اگلا حربہ استعمال کیا گیا۔ یہ بیکٹیریا کو دھوکا دینے کا تھا۔ اس جین کو الگ پلازمڈ میں ڈالنے کے بجائے بیکٹیریا کی اپنی جین کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ بیکٹیریا اپنی طرف سے بیکٹیریل پروٹین بنا رہا ہو گا جبکہ ساتھ ہی انسانی پروٹین بن رہی ہو گی۔ تین مہینے میں یہ کام کر لیا گیا۔ اگست 1977 کو ٹیم دوسری مرتبہ اکٹھی ہوئی۔ سب نروس کھڑے اس کے نتائج دیکھ رہے تھے کہ ڈیٹکٹر سے آواز آنے لگی۔ سوماٹوسٹیٹن تیار تھی۔ بیکٹیریا سے انسانی پروٹین تیار کروا لی گئی تھی۔
اگلا مقابلہ انسولین بنانے کا تھا، جس پر سان فرانسسکو میں یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کی ایک اور ٹیم بھی کام کر رہی تھی۔ یہ مقابلہ ایک چھوٹے بزنس اور ایک بڑی یونیورسٹی کے درمیان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی 1978 میں جینن ٹیک کو ایک بڑی کامیابی ہوئی، جب انہوں نے انسولین کی زنجیریں تیار کر لیں۔ 21 اگست 1978 کو رات گئے ٹیسٹ ٹیوب میں ان کو جوڑ کر پہلی بار انسولین کو تیار کر لیا گیا۔ اس کو پیٹنٹ کروانا ایک لمبی اور نئی بحث تھی۔ اددیات نئے کیمیکل ہوتے ہیں جنہیں پیٹنٹ کروایا جاتا ہے، جبکہ انسولین تو قدرتی کیمیکل تھا۔ اس کو کیسے پیٹنٹ کروایا جا سکتا ہے؟ وکیلوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد اس کا حل نکال لیا۔ اس کو کرنے کے عمل کو پیٹنٹ کروایا گیا۔ یہ پیٹنٹ اکتوبر 1982 کو منظور ہوا، جو ٹیکنالوجی کی تاریخ کے منافع بخش اور متنازعہ پیٹنٹس میں سے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسولین بائیوٹیکنالوجی کی صنعت کا بڑا سنگِ میل تھا۔ جین کلوننگ کی ٹیکنالوجی سے علاج کا آغاز ہو گیا تھا۔

جینن ٹیک نے کمپنی کو 14 اکتوبر 1980 کو سٹاک ایکسچینج پر لسٹ کیا۔ یہ اس وقت تاریخ میں کسی بھی ٹیکنالوجی کمپنی کی ہونے والی کامیاب ترین آفرنگ تھی۔ چند گھنٹوں میں ساڑھے تین کروڑ ڈالر کمپنی کے پاس آ چکے تھے۔ اس سے پہلے قدرتی طریقے سے گائے اور خنزیر کے لبلبہ سے انسولین حاصل کی جاتی تھی۔ اس نئے طریقے سے حاصل کی جانے والی دوا کا نام ہومولین رکھا گیا۔ اس کی سالانہ فروخت 1983 میں 8 ملین ڈالر، 1996 میں 90 ملین ڈالر اور 1998 میں 700 ملین ڈالر سالانہ کی ہو چکی تھی۔
جینن ٹیک نے ڈوارف ازم کے علاج کے لئے 1982 میں ایچ جی ایچ بنائی۔ 1986 میں خون کے سرطان کے لئے امیونیٹی کی پروٹین۔ اس سے اگلے برس ٹی پی اے جو سٹروک یا ہارٹ اٹیک کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ہر بریک تھرو ٹیکنالوجی کا بڑا معرکہ تھا۔ (بڑے مالیکیولز کے لئے بیکٹیریا استعمال نہیں کئے جا سکتے تھے۔ اس کیلئے کیچووں اور چوہوں کا رخ کرنا پڑا)۔ 1990 میں ویکسینز جس میں ہیپائٹائیٹس بی کی ویکسین تھی۔ دسمبر 1990 کو اس کو دو ارب دس کروڑ ڈالر سے زائد میں اس کے حصص فروخت کر دئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جینن ٹیک نے 2001 میں بائیوٹیک کی تحقیق کا دنیا کا سب سے بڑا مرکز بنایا جس میں ایکڑوں پر پھیلی شیشے کی عمارت تھی۔ اس کے بانی جنہوں نے صرف ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر کے یہ ادارہ شروع کیا تھا، ان کا مجسمہ اس کے سامنے نصب کیا گیا۔ وہ یہ کیمپسس دیکھنے کے لئے زندہ نہیں تھے۔ ان کا انتقال باون برس کی عمر میں 1999 میں دماغ کے ٹیومر کے ہاتھوں ہو چکا تھا۔
(جاری ہے)

ساتھ لگی تصویر جینن ٹیک کے دفتر کی ہے۔

south-san-francisco-campus

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply