دوبارہ پھر سے۔۔ضیغم قدیر

“سانپ کے ڈسے ہوئے لوگ مر جاتے ہیں لیکن زندگی کے ڈسے ہوئے لوگ مرتے تو نہیں مگر ان کی زبانوں پہ چپ لگ جاتی ہے۔”

وہ بھاگے جا رہی تھی، اُس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر بار بار گھوم رہا تھا۔ اُس کے پچھے دو پائیوں اور چار پائیوں والے دونوں درندے لگے ہوئے تھے۔ وہ سید پور گاؤں کی حدود سے نکل کر اب مارگلہ روڈ پہ آ نکلی تھی۔ مگر قدموں کی چاپ ابھی تک اس کا پیچھا کر رہی تھی۔

“زندگی میں کئی موڑ حیران کُن ہوتے ہیں لیکن کچھ موڑ اتنے حیران کُن ہوتے ہیں کہ زندگی ختم کر لینے کا دل کرتا ہے مگر ہم ایسا نہیں کر پاتے۔”

اب وہ بار بار اپنے فیصلے پہ پچھتا رہی تھی۔ کہ کاش وہ گھر سے نا نکلتی اور نا ہی نوبت یہاں تک آتی۔ انہی سوسائڈل سوچوں میں بھاگتی بھاگتی وہ ایک دروازے سے جا ٹکرائی۔ بے ساختہ اس نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آج مجتبیٰ سے پھر لڑ پڑی تھی۔ گو تانیہ صرف مجتبیٰ کے لئے ہی تیار ہو کر یونیورسٹی آئی تھی۔ مگر باتوں ہی باتوں میں وہ اس سے جھگڑ پڑی۔ تانیہ جو کہ مجتبیٰ کی زندگی میں آمد سے پہلے بے رونق سا چہرہ لئے آیا کرتی تھی آجکل بہت چہکی چہکی صورت کیساتھ یونیورسٹی آ رہی تھی۔ گویا

کھلے پھول دے رہے ہیں نوید
سالوں بعد ہے گلشن میں بہار آئی

وہ اس سے پہلے بھی مجتبیٰ  سے لڑتی تھی ،ناراض ہونے کی اداکاری کرتی تھی اور پھر مجتبیٰ  اسے مناتا تھا، مگر آج مجتبیٰ  کسی پریشانی میں گم تھا سو وہ غصے میں لہراتا اسے خدا حافظ بول کر نکل گیا۔ اور تانیہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئی۔ رہ رہ کر اُسے اپنی ماں کی بات یاد آ رہی تھی کہ

“بیٹا رشتہ وہی مضبوط ہوتا ہے جس میں لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہوں۔ مگر جب صرف جھگڑے ہی جھگڑے ہونے شروع ہوجائیں تو رشتہ بچانے کی خاطر جھک لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔”

مگر وہ کہاں ماننے والی تھی سو اب چُپ چاپ لان میں بیٹھی اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی سے واپس آئے تانیہ کو کافی دیر ہوگئی تھی۔ وہ تانیہ جو چڑیوں کی طرح ہر وقت چہچہاتی رہتی تھی اس کے چہرے پہ بے رونقی دیکھ کر اس کی ماں سمجھ گئی کہ ہو نا ہو ضرور اسکا مجتبیٰ کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے۔ سو وہ بولیں
“بیٹا! پتا ہے انا اور غصہ ایک دیمک کی طرح ہوتے ہیں یہ محبت کی لکڑی پہ اگر ایک بار لگ جائیں تو دھیرے دھیرے سے یہ محبت کی ساری عمارت کو چاٹ دیتے ہیں۔ بعد میں بندے کے ہاتھ میں بس انا اور غصے کی مٹی ہی رہ جاتی ہے۔ جاؤ اُس کو منا لو۔”

باہر سورج دور پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا۔ آسمان میں پھیلی لالی اب مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ نے اس بات کا شور مچا رکھا تھا کہ اگر زندگی میں سکوت آگیا تو یہ شامیں ایک قبرستان کا سا منظر پیش کرنے لگیں جہاں پہ لوگ چپ سادھے لیٹے رہتے ہیں۔

وہ گھر سے باہر نکلی۔ اُس نے مجتبیٰ کو گاؤں کے داخلے کے راستے کے قریب بلایا تھا۔ مارگلہ روڈ سے اندر کی طرف جاتا یہ راستہ گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا جن پر لال رنگ کی لٹکتی ٹاکیاں عقیدت کا اظہار کر رہی تھی۔

اب نیم تاریکی چھا چُکی تھی۔ چونکہ سردیوں میں تیندوے پہاڑوں سے نیچے آ جاتے ہیں سو اس لئے گاؤں کی گلیاں سُنسان ہو چکی تھی۔ دیس پردیس کیفے میں استاد نصرت کی آواز میں مدھم سا گانا چل رہا تھا جس پر کچھ جرمن جوڑے جھوم رہے تھے۔ جبکہ مندر کی گھنٹیاں دور دور تک سنائیں دے رہی تھی۔

وہ تیز تیز چلتی ہوئی اسلام آباد کی طرف آئی۔ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اچانک سے اُسے درختوں کی اوٹ سے گاڑی کی لائٹیں نظر آئیں۔ وہ تیز چلتی ہوئی مجتبی ٰ سے ملنے کی امید کیساتھ آگے بڑھی مگر چند فٹ پہلے وہ کیا دیکھتی ہے کہ گاڑی کی ڈگی میں سے ایک شخص لاش نکال رہا تھا۔ وہ ٹھٹک کے رہ گئی۔ بے ساختہ اسکے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ اُس نے قاتل کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔

قاتل نے مُڑ کر اسے دیکھا۔ خوفزدہ تانیہ نے بھاگنا شروع کر دیا۔وہ بھاگے جا رہی تھی، اُس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر بار بار گھوم رہا تھا۔ اُس کے پچھے دو پائیوں اور چار پائیوں والے دونوں درندے لگے ہوئے تھے۔ وہ سید پور گاؤں کی حدود سے نکل کر اب مارگلہ روڈ پہ آ نکلی تھی۔ مگر قدموں کی چاپ ابھی تک اس کا پیچھا کر رہی تھی۔

“زندگی میں کئی موڑ حیران کُن ہوتے ہیں لیکن کچھ موڑ اتنے حیران کُن ہوتے ہیں کہ زندگی ختم کر لینے کا دل کرتا ہے مگر ہم ایسا نہیں کر پاتے۔”

اب وہ بار بار اپنے فیصلے پہ پچھتا رہی تھی۔ کہ کاش وہ گھر سے نا بھاگتی اور نوبت یہاں تک نا آتی۔ انہی سوسائڈل سوچوں میں بھاگتی بھاگتی وہ ایک دروازے سے جا ٹکرائی۔ بے ساختہ اس نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد ایک بزرگ شخص نے دروازہ کھولا۔ گبھرائی ہوئی تانیہ بنا پوچھے اندر گھس گئی۔بزرگ شخص ہکا بکا رہ گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی تانیہ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ بزرگ شخص نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا کہ بیٹا کیا ہوا ہے؟ تو اس نے الف سے ی تک کتھا سنا دی۔ جس پر بزرگ سنجیدگی سے بولے

“قاتل اور سانپ کبھی بھی کسی کی شکل نہیں بھولتے۔ وہ اپنی جاسوسی کرنے والے کا تب تک پیچھا کرتے ہیں جب تک اُسے ختم نہ  کر لیں۔ سو تم یہیں   رات گزار لو۔”

تانیہ ہچکچائی اور واپس جانے کی ضد کرنے لگ پڑی، اتنے میں باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ بزرگ باہر دروازہ کھولنے جاتے ہیں۔ یہ کوئی اور نہیں انکا بیٹا تھا جو گاڑی پہ آیا تھا۔ بزرگ شخص نے بیٹے کو وہیں کھڑا کیا۔ اور تانیہ کو بلایا۔

بیٹا آجاؤ ، دیکھو تمہاری مشکل آسان ہو گئی، رزی تمہیں چھوڑ آتا ہے۔

تانیہ کی سانس میں سانس آئی۔ وہ جلدی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ میں جا بیٹھی۔ رزی نے گاڑی گھر سے نکال کر مارگلہ روڈ پہ ڈال دی۔ اور پیچھے مُڑ کر تانیہ سے پوچھا کہاں جانا ہے مگر تانیہ رزی کو دیکھ کر یوں ہوگئی جیسے کاٹو تو لہو نہیں۔ کیونکہ ڈرائیور رزی کوئی اور نہیں تھا بلکہ وہی تھا جو گاڑی سے لاش نکال رہا تھا۔
“سانپ کے ڈسے ہوئے لوگ مر جاتے ہیں لیکن زندگی کے ڈسے ہوئے لوگ مرتے تو نہیں مگر ان کی زبانوں پہ چپ لگ جاتی ہے۔”

گاڑی سید پور کی طرف مُڑی، اگلے دن اخبار میں دو مسخ شُدہ لاشوں کی خبر چھپ نکلی۔ یہ مسخ شدہ لاشیں ایک ادھوری داستان تھی جو انا کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔

پردہ گرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

” دوبارہ پھر سے “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply