ان کے اندر کے انڈین کو مار دو۔۔حبیب شیخ

انتساب:  کینیڈا اور امریکہ کے اصلی باشندوں کے بچوں کے نام ،جنہیں بیسوی صدی میں ’انسان ‘ بنانے کے لئے جبراً خصوصی رہائشی  سکولوں میں رکھا گیا۔

“تم لوگ کہاں ہو؟ میری پکار کو کیوں نہیں سنتے ؟ اماں ، ابا ، تالا مجھے بچا لو ۔ میں تہہ خانے میں بند ہوں۔ یہ قریب آتی ہوئی قدموں کی چاپ خاموشی سے بھی زیادہ خوفناک ہے ۔ اب یہ پادری استاد میرے پاس آئے گا اور میرے جسم کو نوچے گا ۔ اس کے چھونے سے پہلے ہی مجھے موت آ جائے ! میرا قصور کیا تھا ، میں نے اپنی مادری زبان میں بات کر لی تھی۔”
“رونا بند کرو میں شور پسند نہیں کرتا ۔” دراز قد و قامت والا سفید فام شخص کھلے کپڑوں میں ملبوس حکم دے رہا تھا۔
“مجھے معاف کر دیں میں اپنی زبان میں کبھی بات نہیں کروں گا ۔” اس نحیف آواز میں تیرہ سالہ ہیرک کی کتنی معصوم التجا تھی۔
“یہ تو سزا کا حصہ نہیں ہے سزا تو تجھے بعد میں ملے گی ۔” پادری نے ہیرک کے جسم کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔
دو منٹ بعد ہیرک نے ایک ہلکی سی چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر ٹھنڈے یخ فرش پر گر گیا۔

“ہیرک تمہیں اتنی سزائیں مل چکی ہیں ۔ تمہیں دو دو دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے ایک بار تمہارے بازووں کی جلد تک جلائی گئی ۔ تم یورپین زبان میں بات کیا کرو۔”
“اکیکتا میرے ہمدرد دوست، میرے ساتھ تہہ خانے میں پادری نے ۔۔۔۔” ہیرک رک گیا اور ہوا میں گھورنے لگا جیسے وہ دور کسی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اکیکتا یہ سن کر کچھ دیر کے لئے سکتے میں آگیا۔ “پھر بھی تم اپنی زبان میں بات کرنے سے باز نہیں آتے ،یہ یورپین تمہیں کچا چبا جائیں گے۔”

ہیرک نے ایک گہری آہ  بھری اور چہرے پر دو موٹے موتیوں کو ہاتھ سے ملتا ہوا بولا ۔ “یار ، مجھے گھر والے بہت یاد آ رہے ہیں ایک سال ہو چکا مجھے ان سے ملے ہوئے ، ایک سال ہو چکا ہے جب مجھے یہ لوگ میرے گھر والوں سے چھین کر یہاں لے آئے تھے ۔ ایک دفعہ بھی ان سوروں نے مجھے ان سے ملنے نہیں دیا۔”

“ہیرک اس جہنم میں کچھ سال تو گزارنے ہی پڑیں گے۔ پھر ہم آ زاد ہو جائیں گے۔”
“اور ہاں ہمیشہ کے لئے ان یورپین کے ذہنی غلام بن جائیں گے ۔ ہم اپنی زبان اور سب کچھ بھول جائیں گے اور پھر اپنے ہی لوگوں کے لئے اجنبی بن جائیں گے۔”

“ہیرک تو سوچتا بہت ہے اور بڑوں والی باتیں کرتا ہے۔ یہ سب ظلم تو برداشت کرنا ہی پڑے گا ہم میں سے کوئی بھی یہاں آنے کے بعد اپنے گھر والوں سے نہیں ملا ہے ۔” اکیکتا احتیاطاًادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔

“اکیکتا تمہیں میرے نام کے معنی پتا ہیں ، فوجی لیڈر۔ میں کبھی ہتھیار نہیں ڈالوں گا ۔” ہیرک اپنی مادری زبان میں ہی بول رہا تھا۔

“تم یہاں کر کیا سکتے ہو سزا بھگتنے کے علاوہ ! ” اکیکتا کے چہرے پر اضطراب تھا ۔

“تم دیکھ لو گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں ۔”

” اچھایہ بتاؤ کہ تم ہر وقت دروازوں اور کھڑکیوں کی طرف کیوں دیکھتے رہتے ہو۔”

ہیرک نے یہ بات سنی ان سنی کر د ی۔

باہر دسمبر کی سرد رات تھی اور درجہ حرارت صفر سے نیچے تھا ۔ آج پھر ہیرک تہہ خانے میں بند تھا ۔ وہ کانپ رہا تھا کچھ سردی سے اور کچھ پادری استاد کے بارے میں سوچ کر۔ پھر وہی بھیانک خاموشی اور اندھیرا ، ہلکے ہلکے قدمو ں کی آواز سن کر اسے شدید جھرجھری آئی اور وہ بوائلر کے پیچھے چھپ گیا ۔ ایک دراز سایہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر رک گیا ۔

“ہنری ، تم کہاں ہو؟”

“میرا نام ہنری نہیں ہے ، ہیرک ہے ۔ ” ایک اندرونی قوت نے ہیرک کو طاقت بخش دی تھی۔

“تمہیں اس کی بہت سزا ملے گی ۔ تم صرف اپنا نیا نام استعمال کر سکتے ہو ، انسانوں والا نام نا کہ انڈین نام۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ انڈین زبان، انڈین کھانا پینا ، انڈین طور طریقے چھوڑکر انسان بن جاؤ۔ پھر تمہیں کوئی سزا نہیں ملے گی۔”

اچانک ہیرک نے پیچھے سے اچک کر پادری کے گلے میں رسہ ڈالا اور اس کا گلا گھونٹ دیا۔ ہیرک آنکھیں پھاڑے پسینے میں شرابور اس کی سانسیں سن رہا تھا اور پھر ایک ہچکی کی آواز  کے بعد اسے ناچتے ہوئے سائے نظر آرہے تھے۔ ہیرک نے گھبرا کر اندھیرے میں چاروں اطراف نظریں دوڑائیں اور اس کو وہ دروازہ کھلا ہوا نظر آیا جہاں سے پادری تہہ خانے میں داخل ہوا تھا ۔ ہیرک کے چہرے پر ایک عجیب سی مسرت  عود کر آئی۔ دبے پاؤں اس نے اوپر آ کر ہلکی ہلکی روشنی میں دروازوں اور کھڑکیوں کا جائزہ لیا ۔ آہستہ آہستہ اس نے ایک کھڑکھی کو کھولا تو ایک چٹاخ کی آواز پیدا ہوئی ۔ اب وہ باہر کی طرف بھاگ رہا تھا اور  سکول کی عمارت سے باہر آچکا تھا ۔ دو یورپین محافظ اس کا پیچھا کر رہے تھے ۔ ہیرک اس زمین کے ہر نشیب و فراز سے واقف تھا ۔ ایک دو دفعہ محافظوں نے گولیاں بھی چلائیں لیکن وہ ہیرک سے دور نشانے لگا رہے تھے ۔ ہیرک دل ہی دل میں بادلوں کا شکریہ ادا کر رہا تھا جنہوں نے چاندنی کو زمین پر پھیلنے سے روکا ہوا تھا۔

ایک گھنٹے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہوا تھا ۔ اس کی موٹی موٹی آنکھیں جذبات سے لبریز تھیں ۔ اس نے دو تین بار دروازہ کھٹکھٹایا پھر کپکپاتے ہوئے بولا ۔ “تالا ، دروازہ کھولو۔”

دروازے کے کھلتے ہی وہ اپنے ماں باپ اور تالا سے لپٹ گیا ۔ ان سب کے منہ پر ایک ہی سوال تھا “ہیرک تم یہاں کیسے؟ ”

“میں اب اس اسکول میں کبھی نہیں جاؤں گا ، کبھی نہیں جاؤں گا ۔ یورپین بہت ظالم ہیں۔ ”

“لیکن میرے بیٹے وہ تم کو یہا ں سے لے جانے کے لئے صبح آجائیں گے اور ہمیں اور تم کو سخت سزائیں ملیں گی ، ہماری سزا تو موت ہو گی ۔ ” باپ کا چہرہ خوف کے مارے زرد ہو رہا تھا۔

“توَ ہم ان سے لڑ سکتے ہیں۔ ”

“کیسے، ان کے پاس تو بندوقیں ہیں اور ہمارے پاس صرف تیر کمان ۔ تم نے بھا گ کر بہت غلطی کی ہے ۔ اب ہم سب مارے جائیں گے۔ ”

“تم نے میرا نام ہیرک رکھا تھا تو میں ہیرک بن کر دکھاؤں گا۔ ”

تالا آگے بڑھا اور ہیرک کو گلے سے لگاتا ہوا بولا ۔ “تم جاؤ، اس سرد ہوا کی روح کی قسم چلے جاؤ۔ چند سال  سکول میں اور گزار لو پھر تم آزاد ہو کر واپس آجاؤ گے ۔ بھاگنے کی سزا بھگت لو۔”

اماں نے ہیرک کو اپنی طرف کھینچا اور اس کے ماتھے کو چوما۔ “یہاں سے دور مشرق کی طرف بھاگ جاؤ اور دوبارہ واپس آنے کی کوشش نہیں کرنا۔ ”

“اماں، یورپین آئیں تو انہیں نہیں بتانا کہ میں یہاں آیا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ تمہیں کچھ نہ  کہیں وہ ”

ہیرک ماں باپ اور تالا سے گلے ملا ، کچھ تیر کمان اٹھائے اور بھاگنا شروع کر دیا۔

صبح کی روشنی گھر میں داخل ہوئی تو تالا عجیب نظروں سے ماں کو دیکھ رہا تھا۔ “ماں ایک بات پوچھوں۔ ”

“ہوں۔ ”

“تم روز صبح اٹھ کر ہیرک کو یاد کر کے روتی ہو لیکن آج تُم کوئی خاص پریشان نہیں لگ رہی ۔ میں تو اُس کے بارے میں فکر مند ہوں۔ ”

ماں کچھ دیر خاموش رہی پھر اٹھ کر میز سے ہیرک کی تصویر کو اٹھا کر سینے سے بھینچ لیا ۔ “میرا ہیرک ہمیشہ کے لئے آزاد ہے ، وہ جی رہا ہے یا مر چکا ہے لیکن اب وہ آزاد ہے۔ اب کوئی اس کے اندرکا انڈین نہیں مار سکتا۔”

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ جات:
“Kill the Indian and Save the Man”
from a paper read by U.S. Capt. Richard H. Pratt at an 1892 convention on the Education of Native Americans

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply