عہدِ فاطمی:
فاطمیوں کی حکمرانی کے زمانے میں بھی رشوت کابازارگرم رہا،صورتِ حال اس حدتک خراب ہوگئی کہ خلیفہ حاکم بامراللہ (1021-985)کوحسین بن علی بن نعمان کے بارے میں یہ فرمان جاری کرناپڑاکہ اس کی تنخواہ اورجاگیرمیں اضافہ کردیاجائے،تاکہ وہ لوگوں سے ناجائزوصولی سے بازرہے ـ (کندی)
مسلم حکومتوں میں رشوت لینے /دینے کی روایت۔۔۔(قسط اوّل)تحریر: محمدشعبان/ ترجمہ: نایاب حسن
عہدِ ایوبی:
عہدِ ایوبی میں مسیحی مذہبی عہدوں کے حصول کے لیے بھی رشوت لی /دی جاتی تھی، معروف مؤرخ مقریزی نے اپنی کتاب “السلوک فی معرفةالدول والملوک “میں بیان کیاہے کہ 1235ء میں کیرلس نامی شخص کو سکندریہ میں مقیم عیسائیوں کے قبیلہ “یعاقبہ ” کاپادری رشوت لے کربنایاگیاتھا، یہ شخص قیادت اوردولت کالالچی تھا ،جس کی وجہ سے اس کے قریبی لوگ بھی اس سے متنفرہوگئے تھے،چنانچہ انہی میں سے ایک ابن ثعبان نامی راہب نے عوام کے سامنے اس کی پول کھول کررکھ دی ـ اس نے بتایاکہ کیرلس نے رشوت دے کر پادری کاعہدہ حاصل کیاہے، پوری ایک جماعت اس کے خلاف ہوگئی اورسب لوگ سلطان نجم الدین کے وزیر معین الدین کے پاس آئے، اس پادری کی غلط کاریوں کوبیان کیا اوراسے معزول کیے جانے پرمصرہوگئے، مگروہ پادری بھی کائیاں قسم کاتھا، اس نے سلطان کی خدمت میں کچھ “ہدیے “بھیجے اورنتیجتاًاپنی وفات (1242ء) تک اس عہدے پرجمارہا۔ـ
حالانکہ کئی باررشوت دے کرکام نکالنے کی کوششیں ناکام بھی ہوجاتی تھیں،چنانچہ عبدالرازق نے اپنی کتاب “مفرج الکروب في أخباربني أيوب “میں عبداللہ بن محمدبن سالم ملقب بہ ابن واصل کے حوالے سے لکھاہے کہ:
” عبدالکریم بیسانی نے سکندریہ کاگورنربننے کے لیے عزیزبن صلاح الدین کو 1194ءمیں چالیس ہزاردیناربطوررشوت بھجوایا اورواسطہ کے طورپرسلطان کے وزیرفخرالدین جہارکس کواستعمال کیا،بلکہ پانچ ہزاردینارکی رقم اس کی خدمت میں بھی پیش کی، عزیزکے پاس جب یہ رقم پہنچی، تواس نے لینے سے سختی سے انکارکردیا، حالانکہ اس وقت اسے شدیدضرورت بھی درپیش تھی، اس نے وزیرفخرالدین سے کہا “یہ مال جس نے دیاہے، اسے لوٹادواورکہہ دیناکہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے، اسے بتاناکہ اگرمیں یہ مال لیتاہوں، تویہ ایساہوگا گویااہلِ سکندریہ کومیں نے اس کے ہاتھوں فروخت کردیا اورمیں ایساہرگزنہیں کرسکتا”ـ
عہدِ غلامان:
عہدِ ممالیک میں کئی ایسے قاضی تھے، جنھوں نے رشوت دے کرمنصب حاصل کیاتھا، عبدالخالق کی تحقیقی تصنیف “الفسادالإداري والمالي في مصر في عصر دولة المماليك “میں بدرالدین کردی سنجاری اوربدارالدین محمدبن ابوالبقاء کے بارے میں لکھاہے کہ انھوں نے 1377ء میں عہدۂ قضاکے حصول کے لیے رشوت دی تھی ـ یہ دونوں قاضی شافعی المسلک تھے، جبکہ 1380ء میں ایک مالکی المسلک قاضی علم الدین سلیمان البساطی کوجب حکومت نے معزول کرناچاہا، توانھوں نے حکومت کورشوت دے کراپناعہدہ بچایا ـ اس عہدمیں مصرکے مختلف شہروں میں ایسے کئی واقعات رونماہوئے، مثال کے طورپرمعروف عربی سیاح ابن بطوطہ کی کتاب “تحفة الأنظارفي غريب الأمصار وعجائب الأسفار “کے مطابق فخرالدین بن مسکین نے ناصربن محمدبن قلاوون کی حکومت کے زمانے میں پچیس ہزاردرہم خرچ کرکے اسکندریہ میں عہدۂ قضاحاصل کیاتھا، مقریزی کی روایت کے مطابق ایک دوسرے صاحب شمس الدین بن السدیداسنائی نے شہرقوص کاقاضی بننے کے لیے 1304میں دولاکھ یااسی ہزاردرہم خرچ کیےـ۔
جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں