ہجر کی شاخیں۔۔۔رمشا تبسم

ہجر کی شاخیں
سسکیوں کے موسم میں
اذیت کے پھول گرا رہی ہیں
ذرد پڑتی وحشت اب
ٹہنیوں سے جدا ہو رہی ہے
رفتہ رفتہ سرد ہوائیں
یادوں کو منجمند کر رہی ہیں
شاخوں پر بیٹھے پنچھی
خوفزدہ ہو کر چیخ رہے ہیں
گھونسلے بھی ان کے اب
اذیت سے بھر چکے ہیں
ہر طرف سکوں کی
کلیاں مُرجھا چکی ہیں
کچھ باقی رہا تو بس
اداسی کی جڑیں
جو ہجر کو تنہائی کی زمین
میں گاڑے ہوئے ہیں
یادوں کی سوکھی کونپلیں
زمین بوس ہو رہی ہیں
اب بس!
وصل کا پھل رہ گیا تھا
اس میں بھی کیڑا لگ چکا ہے
اور یہ ہجر کا کیڑا
رفتہ رفتہ وصل کے پھل
کو کھا رہا ہے
کچھ باقی رہے گا تو بس
دل کے صحرا میں
ہجر کا درخت
جس کی ہر شاخ میں اذیت
اُگ رہی ہے
ہجر کی شاخیں اب
جدائی کے موسم میں
سُوکھے خواب گرا رہی ہیں
آس کے جگنو
اب اذیت کی ٹہنیوں
پر مرتے جا رہے  ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply