ظاہری سکوٹر۔۔سلیم مرزا

بچوں کے شوق بھی عجیب ہیں۔ظاہر محمود نے فیس بک پہ اشتہار دیا کہ اسے ایک  سکوٹر کی ضرورت ہے ۔قیمت دس ہزار سے زیادہ نہ ہو،بزرگوں کے پاس سے عموماً کوئی نہ کوئی قدیم نسخہ ہوتا ہی ہے۔ ۔میرے ہاں دو تھے۔
ایک تو ہمارا خاندانی ویسپا تھا ۔دوسرا میرے کزن یونس کے پاس دیسی دوائیوں کی کتاب کے ساتھ ایک چوراسی ماڈل  سکوٹر بھی تھا ۔ظاہرمحمود چونکہ ان دنوں ڈھولکی کی پبلشنگ میں مصروف تھا،تو ویسپے کو شام چوراسی گھرانے کا سمجھ کر مجھ سے رابطہ کیا ۔
میں نے بھی سوچا دو تیروں میں ایک شکار کرتے ہیں ۔۔فوراً اسے کہا کہ فرصت ہو نہ ہو آجاؤ۔۔دو دن بعد ظاہر محمود کا فون آیا”کامونکی آرہا ہوں”۔
کامونکی واحد جگہ ہے جہاں سے صرف میں نہیں نکل پایا ۔ورنہ لوگ تو آتے جاتے ہیں ۔میں نے کہا “آجاؤ جناب، میرا کیا ہے، سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوگا “۔
ویسے منڈا چنگا ہے ۔

چنانچہ سارے جہاں کی مسکینی چہرے پہ سجائی اور بیگم کو بتایا کہ لنچ ٹائم تک نکا اپنے دوست وقاص کے ساتھ پہنچ جائے گا ۔
“کھانے میں کیا ہے “؟
“حکم ہوا کہ  گوبھی آلو پکے ہیں، روٹیاں بازار سے منگوا لینا “۔

میں کافی دیر تک ادھر ادھر دیکھا کیا، پھر کچھ الفاظ کی ترتیب درست کی ،پھر مولانا فضل الرحمن کی طرح دھیرے دھیرے کہا۔۔۔
“عوامی اور قومی مفادات کی بھلائی اسی میں ہے کہ نوجوانوں کو چکن کڑاھی سے لنچ کروایا جائے، کیونکہ منڈے قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ”
“اور آپ کی سوچ بھی سرمایہ دارانہ ہے ”
پکا یقین تھا کہ ہیڈکوارٹر اس پہ تحفظات کا اظہار کرے گا مگراندازہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کا زیادہ انحصار ترجیحات کی بجائے موڈ پہ ہوتا ہے ۔
بلا وجہ ہی درخواست منظور ہو گئی ۔

میں بھاگم بھاگ چکن والے کے پاس پہنچا ۔اس نے بھی عجلت بھانپ لی ۔مرغی کی گردن پہ چھری چلاتے ہوئے سامنے والے چکن فروش کی بہن کی شان میں قصیدہ پڑھا ۔وجہ اس کی ریٹ کی سلیٹ پہ لکھی ہوئی قیمت تھی ،جو باٹا کے  سٹائل میں دو سو انیس روپے ننانوے پیسے تھی ۔پھر جتنی دیر تک وہ مرغی کے بند قبا اور اعضاء کے ساتھ دست دراز رہا ۔مطمع نظر سامنے والے کی بہن رہی ۔
مجھے جلدی تھی بس ہوں ہاں کرتا رہا، جیسے ہی اس نے مجھے پوٹ کلیجی کے بنا سامنے والے کی ہمشیرہ شاپر میں ڈال کے دی ، میں لے کر نکل بھاگا۔
مرغی شاپر میں اب بھی پھڑک رہی تھی، کئی بار دل چاہا کہ کھول کے دیکھ لوں۔۔۔
“کہیں مرغی کی جگہ ندا چوہدری تو نہیں کاٹ دی “گھر پہنچتے ہی لہسن پیاز کاٹنے کا دینی فریضہ بھی جماعت اسلامی کی طرح مجھے سونپا گیا ۔
مصالحہ کاٹ کر بیگم کو کچن سے آواز دی تو امت مسلمہ سے فرط عقیدت کی وجہ سے میری آنکھوں  سے  پانی رواں تھا ۔
ظاہر محمود اور وقاص اشفاق کی آمد کی خوشی میں چیئر مین نیب کی طرح پکوائی کے ہر مرحلے کا، سر سے پاؤں تک جائزہ لیا،لمحہ بہ لمحہ سرکاری صورتحال کچھ یوں تھی۔۔جب ظاہر محمود داتا صاحب کے دربار کے پاس پہنچا تو چکن کی ٹانگیں دھوئی جارہی تھیں ۔بالکل ویسے ہی جیسے پرویز الہی موجودہ حکومت کے پیمپر دھو رہا ہے اور ناک  بھوں بھی چڑھا رہا ہے۔

جب ظاہر اوروقاص اشفاق کا شاہدرے تک پہنچنے کا اسٹیٹس آیا تب چکن نے کڑاھی میں سے رابی پیرزادہ کی باتھ ٹب جیسی سیلفی دی ۔
میں نے اپلوڈ نہیں کی ورنہ وائرل ہونے کے بعد مرغی عمرہ کرنے نکل جاتی ۔
جس وقت ظاہر نےمریدکے کے قریب پہنچ کر کال کی اس وقت چکن کی کڑاہی میں حالت موجودہ حکومت میں عوام کی حالت جیسی ہوچکی تھی ۔
بس شبر زیدی دھنیا باقی تھا۔
شکر خدا کا ظاہر کے آنے سے پہلے چکن کڑاہی معرض وجود میں آچکی تھی۔
اظہر نے آتے ہی گھر کی تعریف کی ۔۔
“اسّی لاکھ کا لیا ہے “میں نے عاجزی سے بتایا ۔
“اوپر والا پورشن دس ہزار روپے  کرائے پہ دیا ہوا ہے “۔
اس نے توصیفی نظروں سے مجھے دیکھا تو میں نے مزید بتادیا کہ “گراؤنڈ فلور بارہ ہزار کرائے پہ  دیا ہے “۔
“لیکن گراؤنڈ فلور پہ تو آپ رہتے ہو؟ “ظاہر نے حیرت سے کہا ۔
مجبورا ً بتانا پڑا کہ میں بھی موجودہ حکومت کی طرح کرایہ دار ہی ہوں۔
مکان انہی کا ہے جن کا شروع سے ہے ۔

روٹیاں آئین کی شق نمبر سات اکیاون کے تحت حسب وعدہ بازار سےمنگوائی گئیں،کھانے کے بعد  سکوٹر کہانی شروع ہوئی۔۔اور ہم سب  سکوٹر دیکھنے گئے۔
میرے کزن یونس المعروف کالے کے کارخانے کے کباڑ خانے سے  سکوٹر کو حفیظ شیخ کی طرح برآمد کیا گیا ۔
دو ببلو ڈبلو جیسے کاریگر لڑکوں نے اسے گندے کپڑے سے مزید آلودہ کیا ۔
برسوں سے پڑی مٹی اڑائی گئی ۔تو نیلگوں ساکچھ  سکوٹر جیسا ملا ۔اور ہم سب خاکی خاکی ہو کر مقتدرہ حلقے کے لوگ لگنے لگے۔اس میں پٹرول ڈالا گیا ۔یونس کالے نے ہوالشافی کہہ کر پہلی کک ماری ۔ایک سو چھبیسویں کک پہ بھی نتیجہ وہی نکلا جو دھرنے پہ نکلا تھا ۔
اب ظاہر نے کوئی تین سو کک ٹرائی کیں ۔
وقاص اشفاق کہاں پیچھے رہتا،سخت سردی میں پسینے پسینے ہوا۔سکوٹر ہر کک پہ دھویں کی بجائے گرد اڑاتا۔
اب ان تینوں میں سے مجھے اپنا کزن نہیں مل رہا تھا۔
یونس کالا ہر بیسویں کک کے بعد کوئی نہ کوئی پرزہ کھول دیتا ۔اسی اثناء میں بھیڑ اکٹھی ہو گئی ۔
سکوٹر سڑک پہ ملکی معیشت کی طرح  بکھرا  پڑا تھا ۔
ہجوم کے دو نظریاتی گروہ بن گئے ۔
لبرل طبقہ معتوب نظروں سے ظاہر محمود ،اشفاق اور مجھے دیکھ رہا تھا کہ ایک بزرگ سواری کے ساتھ اتنا بے رحمانہ سلوک کروا رہے ہیں ۔قدامت پسندوں کی رائے تھی کہ جب  سکوٹر ہٹا کٹا نظر آرہا ہے تو چلتا کیوں نہیں ۔؟
آخرکار میرے کزن کی ہمت جواب دے گئی ۔
اس دوران میں نے ظاہر محمود کا، دل اتنا کھٹا کر دیا کہ اسے وسیم اکرم کی عمر کا  سکوٹر بھی بزدار لگنے لگا ۔
میں نے ظاہر سے کہا کہ اسے رہنے دو ۔میں تمہیں دوسرا  سکوٹر دکھاتا ہوں۔ اشفاق اور ظاہر نےای ک دوسرے کو دیکھا ۔گرد آلود نگاہوں سے کوئی گندہ اشارہ کیا ۔
جلدی جلدی سے مجھ سے گلے ملے ۔وقاص اشفاق  اس دوران موٹر سائیکل  سٹارٹ کر چکا تھا ،اس نے تومجھ سے ہاتھ بھی نہیں ملایا ۔
اور یہ جا وہ جا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہاں سے گھر تک واپس آتے میں سوچتا رہا کہ لاہور کی سمت سے آئے تھے ۔گوجرانوالہ کی طرف کیوں بھاگے ہیں؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply