چار سال کی بچی اور نفسیاتی باپ۔۔رابعہ احسن

“چار سال کی بچی ہائیکنگ کرنے کیسے جاسکتی ہے” لائبریری سے نکلتے ہی ٹھنڈ کی جھرجھری نے پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ برف سے ڈھکے ہوئے ، درختوں سے بھرے ہوئے پبلک پوائنٹ پہ جہاں اتنی شدید سردی میں اتوار کی چھٹی والے دن کوئی بھی نہ تھا ، باپ اپنی چار سالہ بچی کو لیکر ہائیکنگ کیلئے پہنچا ۔ سگنل پر کھڑی سامنے سے ایک عورت کو سڑک کراس کرتے ہوئے دیکھا جس نے کارٹ میں ایک بچہ بٹھا رکھا تھا اس پر پلاسٹک کا کور اور اندر بھاری جیکٹ کے علاوہ کوٹ بھی تھا حالانکہ آج اتنی سردی بھی نہ تھی پر یہ ماں تھی بچہ اس کے پاس ہر طرح سے محفوظ تھا اور اتنی ٹھنڈ میں بھی خوشی سے قلکاریاں بھر رہا تھا ۔ اور وہ معصوم ۔۔۔ کیا اپنے ہی باپ کے پاس محفوظ نہ تھی؟ سگنل گرین ہوگیا ۔ میں نے اپنے بچوں کو بتایا کہ ریٹل سنیک پوائنٹ پر ایک چھوٹی سی بچی ہائیکنگ کرتی ہوئی مر گئی۔ بچے بھی حیران تھے۔ اتنی چھوٹی بچی کو کون لے کے جاسکتا ہے، پہاڑی پہ ہائکنگ کیلئے ؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

شام ساڑھے سات بجے سے 45 پولیس والے اور فائیر فائیٹرز دونوں باپ بیٹی کو تلاش کررہے تھے جو کہ دوپہر 2:30 پر پوائنٹ پر ہائکنگ کیلئے آئے تھے ۔ یہ پوائنٹ میرے گھر سے پانچ سات منٹ پر ہے ۔ اس طرح کے سارے واکنگ ٹریکس اور ہائیکنگ پوائنٹس گھنے جنگلوں حتی کہ زمین بھی درختوں کی جڑوں سے بھری پڑی ہے ۔ نیچر کے حسن سے بھرے ان مقامات پر سردیوں اور خصوصاْ برف میں جانا خاصا پُر خطر ہے خصوصاً جب برف گری ہو ،مگر لوگ ہائکنگ کرنے پھر بھی جاتے ہیں۔
فیملی کا ٹوٹ جانا ، گھر نہ بسنا کوئی اتنا آسان مرحلہ نہیں ہوتا پوری فیملی خصوصاً بچوں اور عورت کو نفسیاتی، سماجی اور معاشی سنگینیوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ مرد شاید معاشرے کی مضبوط اکائی ہے ۔ یہاں ہر گز فیمنزم یا مردوں کے خلاف کچھ بھی لکھنا مقصود نہیں کیونکہ آج کا دن صرف اس معصوم اور اس جیسے بروکن فیمیلیز کے بچوں کے بارے میں دل اداس ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں ، نہ ہی کوئی تکلیف ۔ مرد ویہلا بیکار ہوکے بھی معاشرتی اور معاشی طور پر کسی کا محتاج نہیں ۔ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے ۔ اور کسی حد تک انتہائی بے حس بھی۔ بہترین مرد بھی اپنی اصل میں بے حس اور آزاد ہی ہوتے ہیں ۔ شاید بے حسی اور بے لگام آزادی کا احساس مرد کو نفسیاتی طور پر پروان چڑھنے نہیں دیتا ۔ اس پر معاشرتی مضبوطی کہ وہ کچھ بھی کرلےاس کا کچھ نہیں بگڑنا ،اسے انسانیت کے مقام سے گراتا چلا جاتا ہے۔
یہ سب صرف وہی سہتا ہے جو اس کے ساتھ بہت قریبی رشتے میں ہو اور یہ سب صرف عورت اور بچوں کے حصے میں ہی آتا ہے ۔ اور ایک مرد کی نفسیات جتنی اس کی اپنی فیملی پر اثر انداز ہوتی ہے اپنے خاندان کے باقی افراد پر شاید اس کا وہ اطلاق نہیں ہوتا۔
مرد کی نفسیاتی الجھنیں صرف اس کے ساتھ رہنے والی عورت اور بچے سہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی بچوں کے اغوا کے ایمبر الرٹس بجتے ہیں اکثر راتوں کو گیارہ بجے ، بارہ بجے تو بروکن فیملیز کے باپ اپنے بچوں کو لیکر فرار ہوجاتے ہیں ۔ پچھلے سال گیارہ سالہ رِیا اپنے ہی باپ کے ہاتھوں اپنی گیارہوں سالگرہ پر قتل ہوگئی ۔ کیسا دن تھا وہ ، کینیڈا جیسے ملک میں ایک محافظ نے اپنی ہی اولاد کو قتل کردیا اور بعد میں خود کو بھی گولی ماردی۔ ایسے سنگین نفسیاتی جرائم کا اختتام یہی ہوتا ہے ۔ اس کو بھی مار دیا اور خود کو بھی ۔ ظاہر ہے اولاد کو مارنا کوئی آسان کام نہیں ۔ مگر وہ کیا محرکات ہیں کہ مذہب اور قانون کی آزادی اور تحفظ کے باوجود بھی کبھی عورت تو کبھی بچے ایک مرد کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہ پاتے۔۔ ایک آدھ سال پیچھے جائیں تو ایک انتہائی قابل ڈاکٹر شاید نیوروسرجن تھا جس نے اپنی ڈاکٹر بیوی کو قتل کردیا تھا کیونکہ اس نے طلاق فائل کررکھی تھی۔ ایک سابقہ شوہر نے اپنی پریگننٹ بیوی کو قتل کردیا۔ کہیں کوئی بچے لیکر بھاگتا ہوا پکڑا گیا اور آج ۔۔۔ اتنی شدید سردی میں جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو پورا پیک کیے بغیر گھر سے باہر نہیں نکالتے ،یہ کیسا باپ تھا کہ بچی کی لاش جانے کتنے گھنٹے برف میں پڑی ٹھٹھرتی رہی ۔ اور لاش سے پہلے اس معصوم جان کے ساتھ کیا ہوا اس کی ابھی تک کوئی خبر نہیں ۔ باپ خود بھی مر گیا ۔ اختتام تو یہی ہونا تھا۔
مگر کیا ہر ٹوٹنے والی فیملی کو بس ہر طرح سے ٹوٹتے ہی چلے جانا ہے؟؟؟ کیا عورت کو بس ان نفسیاتی مریضوں کے ساتھ رہتے رہنا چاہیے تاکہ فیملی میں کوئی انہونی نہ ہو؟؟ ہمارے معاشرے میں ہر انسان کے پاس گھر بیٹھے انگلیوں پر ساری دنیا کے مسائل کا مفت حل مل جاتا ہے ۔ مگر وہ مسائل جن کا وجود ہوتا ہی نہیں ۔ جن مسائل سے ایک دنیا روز گزرتی ہے ان کا کسی کو علم ہی نہیں ۔ ہم پاکستان کو روتے ہیں اور ڈومیسٹک وائلنس ترقی پذیر ملکوں کا سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے کہ نفسیاتی مسائل حل کرنے میں ناکام یہ معاشرہ حیوانی انجام میں ڈوبتا جارہا ہے اور حل ان کے پاس بھی موجود نہیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply