• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط9/پروفیسر حکیم سید صابر علی

استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط9/پروفیسر حکیم سید صابر علی

فیری کو چلے پندرہ منٹ گزرے ہوں گے،جب ایک صاحب گرم جیکٹ فروخت کرنے کے لیے لائے،اس کی ساری جیکٹیں پندرہ بیس منٹ میں فروخت ہوگئیں،جو چند بچ گئیں،وہ خاموشی سے آدھی قیمت پر فروخت کرکے فارغ ہوگئے۔
ایک صاحب کٹر بیچنے کے لیے تشریف لائے،اُن کا نداز لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی آواز،گفتگو اتنی موثر تھی کہ سارے کٹر چند فیسٹیول میں فروخت ہوگئے،اس کی چرب زبانی اور دعوے اور انداز پاکستانی سیاست دانوں کی طرح محسوس ہوئی۔
خاموشی سے سفر جاری تھا کہ ایک طرف سے ایک جوڑا اٹھا،اس نے ساز کے ساتھ اپنی زبان میں گانے اور ناچ کا آغاز چند منٹوں کے بعد چند نوجوان بچیاں اور بوڑھے جوان پاکستانی طرز پر دھمال ڈالتے نظر آئے۔مغربی طرز کے لباس سے اور حیا سے عاری ان چند افراد کے اندر وہ حرارت پیدا کی کہ پوری فیری ان کی طرف کھنچی آئی۔ایک کونے میں ایک جوان لڑکی،دیکھنے میں محسوس ہوئی کہ جیسے اس سارے ماحول سے وہ نالاں ہے۔ابھی ہم اُس کی وِل پاور کی داددے ہی رہے تھے،کہ وہ چھلانگ لگا کر اُس ٹولے میں شامل ہوگئی۔۔چند منٹوں بعد اُس کا بات،جو اُس کے ساتھ بیٹھا شرافت کا مجسمہ نظر آرہا تھا،وہ بھی ساتھ دینے کو کھڑا ہوگیا۔۔

یہ بھی پڑھیں:استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط8/پروفیسر حکیم سید صابر علی
زیرِ لب استغفار اور دعا کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔الحمدللہ کہ چند منٹو بعد یہ طوفانِ بدتمیزی تھم گیا۔مگر دل کو تسلی دی کہ کون سا کام ہے،کہ جو ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔عبدالطیف بھٹائی کے روضہ پر سید حکیم احسن کے ساتھ ایک نوجوان بچی کو اپنے بالوں کو مسلسل گھما کر دھمال کی کیفیت میں دیکھ کر خیال آیا کہ اس جرم پر بھٹائی خاموش ہیں،ہم کیا کریں،ترکی کا کلچر اور جوانوں کے بے راہ روی خود اپنے مسلک کے تناظر میں عجیب حرکت محسوس نہ ہوئی(اللہ ہمیں معاف کردیں)
چھ بجے ہوٹل پہنچے،حافظ آبادکے نوجوان خرم اور لاہور کے غلام حیدر کے ساتھ ایک قریبی ہوٹل گئے۔ہانڈی ہوٹل جس کے مالکوں نے بتایا کہ برسوں یو اے ای میں کام کرنے کے بعد ترکی میں پاکستانیوں کے حالات بہتر دیکھ کر یہاں کام کا آغاز کیا،پہلی مرتبہ اپنے ذوق کا کھاناملا،میر آصف جو کہقہوے کی دکان میں کل خریدے گئے قہوے بھل آئے تھے،وہ لینے گئے،دکاندار نے انتہائی گرم جوشی سے قہوے کے پیکٹ اُن کو دیے۔درجنوں قسم کے مختلف قہوے مختلف امراض اور اعصاب کی تقویت کے لیے موجود تھے،ایک دکان سے سُرخ ترکی ٹوپی بردار خود کے لیے خریدی،دکاندار خاتون تھیں،انتہائی زندہ دل،اور وسیع القلب،خود ٹوپی پہن کر ساتھ کھڑے کرکے فوٹو لی،واپسی پر دو خواتین پاکستانی برقع پوش ملیں،جو ڈونیشن کے نام پر رقم اکٹھی کررہی تھیں،ایک نوجوان کمبل میں پنجابی زبان میں “مدد”مانگ رہا تھا،جو اپنے نشے میں محسوس ہوا۔خداہماری قوم کو عقل و شعور سے نوازے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply