مثل برگ آوارہ/اہلیہ کے آشنا سے شناسائی(13)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے راولپنڈی میں رہائش پذیر ایک دوست کے ہاں پہنچا تھا۔ دو تین گھنٹے آرام کرنے کے بعد کوچ میں سوار ہو کر روانہ ہوا تھا۔ میری اہلیہ اور بچے جی ٹی روڈ پر واقع مریدکے میں مقیم تھے۔ رات تقریبا” آٹھ بجے میں گھر کے سامنے اترا تھا۔ گھنٹی بجانے پر ملازم نے آ کر دروازہ کھولا تھا۔ میں زنجیر سے بندھے، دیوار پر بیٹھے ایک بندر اور پورچ کے ستون کے ساتھ زنجیر سے باندھے گئے السیشن کتے کو دیکھ کر لمحے بھر کو حیران ہوا تھا مگر یہ سوچ کر کہ لوگ اکثر نقصان ہو جانے کے بعد ہی، جب حفاظت کرنے کو کچھ باقی نہیں رہتا، حفاظتی اقدامات بہت تیزی سے کرتے ہیں چنانچہ اب ان “محافظ جانوروں ” کی موجودگی ان کو محتاط کرنے کے لیے تھی جو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے شیشوں میں سے مجھے میمونہ، کچھ مرد مہمانوں کے ساتھ محو گفتگو دکھائی دی تھی۔ ڈرائنگ روم گھر کا دروازہ کھلتے ہی دائیں جانب تھا۔ جب میں گھر میں داخل ہوا تو میمونہ مجھے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ دونوں مہمان مرد بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ میمونہ نے مہمانوں کا تعارف کرایا تھا جن میں ایک تو مقامی ڈاکٹر صاحب تھے جو پرائیویٹ کلینک چلاتتے تھے، جن کے نام سے میں واقف تھا۔ دوسرا شخص وہی جاوید بٹر نام کا تھا جس کو میمونہ نے میرا دوست بتایا تھا۔ مجھے اس کی شکل کچھ جانی پہچانی لگی تھی مگر مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ میں اس سے کہاں اور کیسے ملا تھا۔ دونوں مہمانوں نے مسکراتے ہوئے میرے ساتھ مصافحہ کیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب تو دوچار منٹ بعد اجازت لے کر رخصت ہو گئے تھے مگر جاوید بٹر بیٹھا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے میمونہ سے جیسے پوچھا تھا کہ میں بھی چلوں مگر میمونہ نے اس سے کہا تھا کہ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ یہ آ گئے ہیں، گپ شپ لگائیں، میں کھانے کا انتظام کرتی ہوں، کھانا کھا کر جانا۔ مجھے کھٹکا لگا تھا کہ میمونہ اس شخص کو عام مہمان کے طور پر نہیں لے رہی۔

دوران گفتگو اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک بار مجھے کوئی مریض دکھانے کے کے سلسلے میں آیا تھا اور میرے ساتھ دس پندرہ منٹ بات چیت کی تھی۔ مجھے پھر اچنبھا ہوا کہ دس پندرہ منٹ کی رسمی گفتگو کے بعد اس نے خود کو میمونہ کے سامنے میرا دوست کیوں ظاہر کیا؟ تاہم اخلاق کا تقاضا تھا کہ وہ چونکہ میمونہ کا زیادہ آشنا ہے اس لیے کوئی استفسار نہ کیا جائے البتہ مجھے کچھ یاد آیا تھا تو میں نے اس سے پوچھ لیا تھا کہ آپ جب ملنے آئے تھے تو وردی میں تھے، غالبا” پولیس کی وردی میں تو آپ کا تعلق کیا پولیس کے ساتھ ہے؟ جاوید بٹر نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کو خجالت کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا،” ڈاکٹر صاحب، روزی روٹی تو کمانی ہے۔ جی ہاں اسی بدنام ادارے سے وابستہ ہوں۔ میں چند ماہ پیشتر آپ کے گھر کے ساتھ جو تھانہ ہے وہاں اٹ ایس ائی تعینات ہوا ہوں”۔

میں اس سے معذرت کرکے گھر کے اندر گیا تھا۔ بچے ٹی وی پر کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھے۔ شاید ان کی ماں نے انہیں بتایا بھی نہیں تھا کہ ان کے پاپا آ گئے ہیں۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوئے تھے لیکن جلد ہی پھر سے اپنی گیم کی جانب راغب ہو گئے تھے۔ میں نے منہ ہاتھ دھویا تھا۔ میمونہ نے میری شلوار قمیص پہلے ہی الماری سے نکلوا کر رکھوا دی تھی۔ میں نے کپڑے تبدیل کیے تھے اور اپنے سامان سے شیمپین کی دو بوتلیں نکالی تھیں۔ میمونہ کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔ بوتلیں دیکھ کر کہا تھا،” کھانے سے پہلے اگر پینی ہے تو جاوید کو بھی مدعو کر لو، وہ بھی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا”۔

مئی کا مہینہ تھا۔ ڈرائنگ روم میں ایر کنڈیشنر نہیں تھا۔ ایر کنڈیشنر صرف بیڈ روم میں تھا۔ میں نے جاوید سے کہا تھا کہ آئیے اندر چلتے ہیں، یہاں قدرے گرمی ہے۔ جاوید بلا حیل و حجت میرے ساتھ ہمارے بیڈ روم میں چلا گیا تھا۔ میمونہ پہلے ہی زمین پر پلاسٹک کی چادر بچھا چکی تھی جس پر بوتلیں اور گلاس رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ہنس کر کہا تھا،”چلو بھائی میرے لوٹنے کی خوشی منا لیتے ہیں۔” ہم دونوں قالین پر بیٹھ گئے تھے۔ میں نے شیمپین کھولی تھی اور ہم دونوں پینے لگے تھے۔
جاوید بٹر نے زیورات کی چوری کا قصہ چھیڑ دیا تھا۔ اس اثنا میں میمونہ بھی آ کر ذرا ایک طرف ہٹ کر ہمارے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔ جب پولیس والا چوری کی تفصیلات بتا رہا تھا تو میمونہ نے رونا شروع کر دیا تھا۔ مجھے زیورات چوری کی کہانی میں کئی جھول محسوس ہوئے تھے۔ جاوید نے نگاہیں اٹھائے بغیر میمونہ سے مخاطب ہو کر کہا تھا،” آپ پریشان نہ ہوں، ہم چور ڈھونڈ نکالیں گے اور آپ کا زیور برآمد کرکے چھوڑیں گے”۔ مجھے کو اس کی کہی یہ بات بالکل کھوکھلی لگی تھی۔ پھر ہم نے کھانا کھایا تھا اور وہ اجازت لے کر رخصت ہو گیا تھا۔

میمونہ کو زیورات کی چوری کے غم اور مجھے اس نووارد شخص بارے شک نے ایک دوسرے کے اس طرح قریب نہیں آنے دیا تھا جس طرح ہمیں کافی مہینوں سے بچھڑے ہوئے میاں بیوی کی طرح قریب ہونا چاہیے تھا۔ میں نے میمونہ کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ کہیں اس چوری میں اس پولیس والے کا ہاتھ تو نہیں ہے۔ میمونہ سیخ پا ہو گئی تھی کہ تم اس شخص کو جانتے تک نہیں ہو اور اس پر شک کر رہے ہو۔ مجھے یہ بات بھی عجیب لگی تھی کہ کہاں تو میمونہ، جاوید بٹر کو میرا دوست بتا رہی تھی اور کہاں یہ کہہ رہی ہے۔ پھر میمونہ نے اپنے اس نئے شناسا شخص کے گن گانے شروع کیے تھے۔ میں کچھ نہیں بولا تھا اور ہم دونوں اپنے اپنے بیڈ پر سو گئے تھے۔

اگلے روز جب میرے ساتھ میرے ڈسپنسر ملازم کو جو میری بہت تعظیم کرتا تھا، علیحدگی میں بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے کہا تھا،”سر معاملہ سنبھال لیں۔ یہ صاحب سارا سارا دن آ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ لوگ باتیں بنانے لگیں ہیں۔ ابھی تو صرف زیور چوری ہوئے ہیں کہیں بڑا نقصان نہ ہو جائے”۔ میں نے اس کی کہی باتوں کا برا نہیں منایا تھا مگر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ اس کی باتیں درست ہیں بلکہ اس کو کسی کام کا کہہ کر معاملہ ادھر ادھر کر دیا تھا۔

میں دن میں کسی بہانے سے میمونہ کو ساتھ لے کر قصبے کے بازار میں ہر اس دکاندار کے پاس گیا تھا جو ہمارا واقف تھا۔ میرے ذہن میں ایک ہی مقصد تھا کہ لوگ جان لیں کہ میاں بیوی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مجھے لگا تھا کہ یہ دورہ کامیاب رہا ہے۔ گھر پہنچے تو جاوید بٹر پہلے سے موجود تھا مگر بغیر وردی کے۔ اس کو دیکھتے ہی میمونہ نے چہک کر کہا تھا،”اچھا ہوا تم نے آ کر یا دلا دیا ہمیں کسی کام سے کہیں جانا ہے”۔ ہم دونوں جاوید کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا چھوڑ کر گھر میں داخل ہو گئے تھے اور میمونہ جانے کی تیاری کرنے لگی تھی۔ اس نے درخور اعتنا ہی نہیں جانا تھا کہ مجھے بتائے کہ کہاں جا رہی ہے۔ بالآخر میں نے ہی پوچھا تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے؟ اس نے بتایا تھا کہ ساتھ کے بڑے شہر میں کوئی عامل ہے جس کے پاس سنا ہے جن آتے ہیں اور اسے معلومات دیتے ہیں۔ میں بھنّا کر رہ گیا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری دوست بیوی اتنی توہم پرست ہو سکتی ہے۔ تاہم میں نے سوچا تھا کہ بیچاری کا بہت نقصان ہوا ہے۔ ایسے میں انسان ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ہو جاتا ہے، چلو کوئی بات نہیں۔

julia rana solicitors london

جب وہ جانے لگے تو میں نے کہا تھا کہ میں بھی ساتھ جاؤں گا، مجھے بھی جن دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ میمونہ جیسے پھٹ پڑی تھی۔ سب کے سامنے بلند آواز میں کہا تھا،” تم کیوں جاؤ گے۔ تمہیں میرے نقصان سے کیا لینا دینا؟ تم سیریں کرتے پھرو اور عیش کرو”۔ اس سے پہلے کہ میں اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا اور بات بڑھ جاتی، جاوید بٹر نے میمونہ کو مخاطب کرکے کہا تھا،” کیا حرج ہے، یہ بھی ساتھ چلیں”۔ میمونہ نے کہا تھا کہ گاڑی میں جگہ ہی نہیں۔ جاوید نے کہا تھا،” ملازم کے جانے کی تو کوئی ضرورت ہے نہیں۔ وہ نہ جائے یہ ساتھ چلے چلیں” اور میمونہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply